یورپی حکام کے مطابق 50 افراد کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے جمعرات کو اسلام آباد پہنچایا گیا لیکن پاکستانی حکام نے انہیں عملے کے ارکان سمیت جہاز سے اترنے سے روک دیا۔
جمعرات کو وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ نے یہ اقدام وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان کے حکم پر کیا کیونکہ یہ افراد غیر قانونی طور پر پاکستان واپس بھیجے گئے۔
بعد ازاں اس معاملے پر اسلام آباد میں یورپی یونین کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ابتدائی طور پر پاکستانی حکام کو یورپ کے تین ممالک سے 61 افراد کے نام بھیجے گئے تھے جنہیں ان ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں نے سفری دستاویزات جاری کی تھیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ناموں کی فہرست اور پاسپورٹ نمبر موصول ہونے کے بعد وزارت داخلہ نے کہا کہ صرف ان افراد کو قبول کیا جائے گا جن کے شناختی کارڈ نمبر بھی موجود ہوں گے۔
یورپی یونین نے کہا کہ شناختی کارڈ نمبر کی شرط پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تارکین وطن سے متعلق معاہدے کا حصہ نہیں اور امید کی جا رہی تھی کہ پاکستانی حکام واپس آنے والے افراد کے کوائف کی تصدیق اُن کے پاسپورٹ نمبروں کے ذریعے کرنے کے بعد اُنھیں قبول کر لیں گے۔
یورپی یونین کے بیان کے مطابق پچاس افراد کو اس پرواز کے ذریعے بھیجا گیا مگر صرف 19 کو قبول کیا گیا جن کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نمبر موجود تھے جبکہ باقی کو غیر تصدیق شدہ قرار دے کر واپس بھیج دیا گیا۔
وزارت داخلہ کے بیان میں چوہدری نثار کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ غیر تصدیق شدہ کوائف کی بنا پر کسی بھی ملک سے کسی بھی شخص کو ملک بدر کرکے پاکستان بھیجنے کی صورت میں اسے اسی فلائٹ سے واپس بھیج دیا جائے گا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یورپین یونین کے کمشنر سے تمام معاملات طے پانے کے باوجود ایک یورپین ملک کی جانب سے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی جس کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ’’کچھ ممالک اس غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر قانونی طریقہ کار کو روکنے کے لیے ہمارے پختہ عزم کو سمجھ نہیں پا رہے۔‘‘
اس سے قبل رواں ہفتے ہی چوہدری نثار نے تارکین وطن کی واپسی سے متعلق ہی ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ کسی پاکستانی کو ملک میں آنے سے نہیں روکا جا رہا ہے۔
’’ہم یورپی یونین اور باقی ممالک سے کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ سلوک میں بہتری لائیں۔ اگر بنیادی حقوق کا ہمیں سبق ملتا ہے تو آپ بھی پاکستان کے بنیادی حقوق کو مد نظر رکھیں تو اس پر انہوں نے اتفاق کیا ہے۔ چند ممالک کی طرف سے شکایت تھی تو فیصلہ ہوا ہے کہ جنوری ۔۔۔ میں اس پہ باضابطہ مذاکرات ہو رہے ہیں جس میں پاکستان ور یورپی یونین کی ٹیمیں ایک ایک شق پر بات کریں گی۔‘‘
یورپی یونین کے کمشنر برائے مائیگریشن دمیترس اوراماپولس نے گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں وزارت داخلہ کے بقول انہوں نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ پاکستان کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک واضح طریقہ کار کے تحت یورپ سے پاکستانی تارکین وطن کو واپس بھیجا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان نے یورپی یونین کے ساتھ 2009 میں غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان واپس بھیجنے سے متعلق ایک معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس موقع پر وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ بغیر وجہ بتائے یورپ سے بھیجے جانے والے کسی شخص کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وزارتِ داخلہ کی اجازت اور پاکستانی سفری دستاویزات کے بغیر پاکستان لانے والی ائیر لائن پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
رواں ہفتے منگل کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا تھا کہ غیر قانونی راستوں سے باہر جانے والے افراد کی وطن واپسی پر ان کے کوائف کی تصدیق کے بعد ان سے تفتیش کی جائے گی اور انہیں باہر بھیجنے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
چوہدری نثار نے بتایا تھا کہ دو ہفتوں کے دوران کی گئی کارروائی کے دوران 234 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں 48 اشتہاری مجرم اور چار عالمی طور پر انتہائی مطلوب انسانی سمگلر شامل ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ انہیں اس بات پر بھی تحفظات تھے کہ کئی پاکستانیوں کو دہشت گردی کا الزام لگا کر پاکستان بھیجا جا رہا تھا۔ ان کے بقول اگر واقعی کوئی ایسی کسی کارروائی میں ملوث ہے تو دستیاب شواہد کی بنا پر اس پر بیرون ملک میں ہی ان کے خلاف عدالتی کارروائی کرنی چاہیئے۔ بصورت دیگر پاکستان کو وہ ثبوت دیے جائیں تاکہ یہاں اس کے خلاف کاررائی کی جا سکے۔
تاہم چوہدری نثار کے بقول بغیر کسی ثبوت کے کسی پاکستانی پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے واپس بھیجنا ناقابل قبول ہے۔