حکومت نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ ملک میں دینی مدارس کے اندراج کا عمل جاری ہے جب کہ صوبوں میں قائم مدارس کے نقشے اور دیگر کوائف حاصل کرنے کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔
پاکستان میں آزاد خیال حلقوں کے علاوہ مغربی دنیا کی طرف سے بھی ایک عرصے سے دینی مدارس کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ یہ مبینہ طور پر دہشت گردی و انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔
مدارس کو باقاعدہ طور پر نظم و ضبط میں لانے کی کوششیں ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہیں لیکن بظاہر مذہبی حلقوں کے اثرورسوخ کی وجہ سے اس ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
لیکن دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ملکی تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملے کے بعد انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل میں مدارس کی رجسٹریشن کو بھی شامل کیا گیا تھا اور متعلقہ فریقین کے مابین ہونے والے متعدد مشاورتی اجلاسوں کے بعد مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نصاب میں اصلاحات کے طریقہ پر اتفاق ہو گیا۔
جمعہ کو قومی اسمبلی میں وزارت داخلہ کی پارلیمانی سیکرٹری مریم اورنگزیب نے وقفہ سوالات کے دوران بتایا کہ مدارس کی رجسٹریشن قومی لائحہ عمل کا اہم جز ہے اور پہلے مرحلے میں صوبوں میں واقع مدارس کے نقشوں کو کام مکمل کر لیا گیا اور اب ان کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ملک کے دینی مدارس کی اکثریت کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور وہ انسداد دہشت گردی میں حکومت سے تعاون کر رہے ہیں۔ حکام کے بقول کسی بھی مشکوک سرگرمی میں ملوث مدارس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی جب کہ رواں سال ہی ڈھائی سو سے زائد مدارس کو سربمہر کیا جا چکا ہے۔
حال ہی میں مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب میں اصلاحات کے لیے بھی اتفاق کیا گیا تھا اور مدرسوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو امتحانات میں انگلش، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے پرچے بھی حل کرنا ہوں گے جب کہ دینی علوم کا کورس تنظیم المدارس مرتب کرے گی۔
مدارس کی بڑی نمائندہ تنظیموں کا موقف ہے کہ مدرسوں سے متعلق پایا جانے والا منفی تاثر ان کے بارے میں معلومات کے فقدان کا نتیجہ ہے اور اعتراض کرنے والوں کو رائے قائم کرنے سے پہلے چاہیے کہ مدارس کے نظام اور نصاب کا مشاہدہ کریں۔