پاکستان نے افغان صدر اشرف غنی کی افغانستان میں امن و استحکام کے لیے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد اس حوالے سےاپنا ہر ممکن کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔
اس پیش کش کا اظہار پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے افغان صدر اشرف غنی سےکابل میں ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔
واضح رہے کہ ناصر خان جنجوعہ نے اپنے افغان ہم منصب حنیف اتمار کی دعوت پر ہفتہ کوایک پاکستانی وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا اور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر افغان عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق پاکستانی اور افغان عہدیداروں نے باہمی تعلقات کو بہتر کرنے، انسداد دہشت گردی اور افغانستان میں امن و استحکام لیے باہمی تعاون کے معاملے پر بات کی۔
حالیہ ہفتوں میں کابل اور اسلام آباد کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں میں اضافہ ہوا ہے اور غیر جانبدار حلقے گزشتہ ماہ کے اواخر میں افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے افغان طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو بڑھانے کی خواہش کے تناظر میں ان رابطوں کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض پاکستانی عہدیدار یہ سمجھتے ہیں کہ افغان صدر کی طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کے ساتھ انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے جو تجاویز دی ہیں اس کے بعد طالبان کے پاس مذاکرات سے انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
"پاکستان نے اشرف غنی کی پیش کش کا مثبت جواب دیا اس کی حمایت کا اعلان کیا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان ایک مزید فعال کردار ادا کرے گا تاکہ طالبان مذاکرات کی میز پر آ جائیں ۔"
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ "اس کاوش میں کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ان کے بقول طالبان کی اپنی مشکلات ہیں اس لیے انھوں نے ابھی تک صدر غنی کی پیش کش کا کوئی مثبت یا منفی جواب نہیں دیا ہے۔"
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا کہ ہے کہ پاکستان افغان امن عمل میں اپنا کردار ادا کرتا تو تیار ہے تاہم اسلام آباد کا موقف ہے کہ افغان طالبان پر ان کا اثر و رسوخ ماضی کی نسبت کم ہو گیا ہے۔
رحیم اللہ کا کہنا ہے اس کےساتھ ساتھ اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد کو بحال کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کے بقول اعتماد کے فقدان کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
"اس میں دونوں کا نقصان ہے اور سب سے ضروری یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نیت پر شک نا کریںاور اعتماد سازی کا کام ہو اور اس کے لیے دونوں طرف سے مناسب اقدام کیے جائیں تو پھر شاید آگے پیش رفت ہو سکے۔"
تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اعتماد سازی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے دونوں طرف سے کوششیں بھی جاری ہیں اور افغان صدر کی طرف سے پاکستانی وزیر اعظم کو دورہ افغانستان کی دعوت دینا بھی انہیں کوششوں کی ایک کڑی ہے۔