وسیم سجاد نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست کی واپسی کا وزیراعظم کی اس مقدمے میں قانونی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اسلام آباد —
وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے میں بد عنوانی سے متعلق مقدمے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی جسے پیر کو واپس لے لیا گیا۔
ان کے وکیل وسیم سجاد نے پیر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہو کر عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم کی طرف سے انہیں ہدایت ملی ہے کہ نظر ثانی کی اپیل واپس لے لی جائے۔ تاہم انھوں نے عدالت عظمیٰ کو وزیراعظم کے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے قومی احتساب بیورو (نیب) کو ہدایت دی تھی کہ رینٹل پاور کے منصوبوں میں بد عنوانی کے الزامات میں وزیر اعظم سمیت 16 افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا جائے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وسیم سجاد نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست کی واپسی کا وزیراعظم کی اس مقدمے میں قانونی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
’’نیب تو اپنی تحقیقات کر رہی ہے۔ جب یہ مکمل ہو جائے گی تو پھر اس کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو تحقیقات جاری ہیں۔‘‘
نیب کے چیئرمین فصیح بخاری نے جمعرات کو عدالت اعظمیٰ کو بتایا تھا کہ ادارے کے پاس رینٹل پاور کیس میں ملوث افراد کے خلاف شواہد ناکافی ہیں اور اگر ان کی بنیاد پر ان کے خلاف ریفرنسس دائر کیے گئے تو وہ عدالت سے بری ہو جائیں گے۔ اس لیے انھیں تحقیقات کے لیے مزید وقت چاہیئے۔
دریں اثناء نیب کے ضلعی دفاتر میں ادارے کے تفتیشی افسران نے اسلام آباد میں سرکاری ہاسٹل میں اپنے ایک ساتھی کامران فیصل کی پرسرار موت کے خلاف پیر کو احتجاجی ہڑتال کی۔
کامران فیصل رینٹل پاور کیس میں نیب کی تفتیشی ٹیم کے رکن تھے اور جمعہ کو دارالحکومت کی ایک سرکاری رہائشگاہ میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔
ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے خود کشی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم کامران فیصل کے ورثاء اور ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ خود کشی نہیں کر سکتا اور رینٹل پاور کیس کی تفتیش کے دوران ملنے والی مبینہ دھمکیوں کے باعث وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔
ورثاء اور نیب کے دیگر کئی افسران کے مطالبے کے بعد حکومت نے اس کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کی زیر نگرانی ایک عدالتی کمیشن بنا دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق احتجاج کرنے والے نیب کے افسران نے حکومت کے بنائے گئے کمیشن پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حاظر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے۔ انھوں نے نیب کے تمام تفتیشی افسران کے لیے سکیورٹی کا مطالبہ بھی کیا۔
اسی سلسلے میں افسران کے ایک وفد نے نیب چیئرمین سے ملاقات بھی کی جس میں ادارے کے ترجمان ظفر اقبال کے مطابق ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
’’(کامران فیصل) کیس سے متعلق ہر قسم کا قدم لینے کو تیار ہیں جس سے یہ معمہ حل ہو سکے۔ انھیں یقین دلایا ہے کہ جو بھی تحقیقاتی ٹیم بنے گی اس میں نیب کا ایک رکن ہوگا تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ یہ یک طرفہ تحقیقاتی عمل ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے نیب چیئرمین کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ بدھ کو عدالت کی سماعت میں رینٹل پاور کیس سے متعلق نیب کی پیش رفت کی رپورٹ پیش کریں۔
ان کے وکیل وسیم سجاد نے پیر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہو کر عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم کی طرف سے انہیں ہدایت ملی ہے کہ نظر ثانی کی اپیل واپس لے لی جائے۔ تاہم انھوں نے عدالت عظمیٰ کو وزیراعظم کے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے قومی احتساب بیورو (نیب) کو ہدایت دی تھی کہ رینٹل پاور کے منصوبوں میں بد عنوانی کے الزامات میں وزیر اعظم سمیت 16 افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا جائے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وسیم سجاد نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست کی واپسی کا وزیراعظم کی اس مقدمے میں قانونی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
’’نیب تو اپنی تحقیقات کر رہی ہے۔ جب یہ مکمل ہو جائے گی تو پھر اس کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو تحقیقات جاری ہیں۔‘‘
نیب کے چیئرمین فصیح بخاری نے جمعرات کو عدالت اعظمیٰ کو بتایا تھا کہ ادارے کے پاس رینٹل پاور کیس میں ملوث افراد کے خلاف شواہد ناکافی ہیں اور اگر ان کی بنیاد پر ان کے خلاف ریفرنسس دائر کیے گئے تو وہ عدالت سے بری ہو جائیں گے۔ اس لیے انھیں تحقیقات کے لیے مزید وقت چاہیئے۔
دریں اثناء نیب کے ضلعی دفاتر میں ادارے کے تفتیشی افسران نے اسلام آباد میں سرکاری ہاسٹل میں اپنے ایک ساتھی کامران فیصل کی پرسرار موت کے خلاف پیر کو احتجاجی ہڑتال کی۔
کامران فیصل رینٹل پاور کیس میں نیب کی تفتیشی ٹیم کے رکن تھے اور جمعہ کو دارالحکومت کی ایک سرکاری رہائشگاہ میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔
ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے خود کشی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم کامران فیصل کے ورثاء اور ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ خود کشی نہیں کر سکتا اور رینٹل پاور کیس کی تفتیش کے دوران ملنے والی مبینہ دھمکیوں کے باعث وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔
ورثاء اور نیب کے دیگر کئی افسران کے مطالبے کے بعد حکومت نے اس کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کی زیر نگرانی ایک عدالتی کمیشن بنا دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق احتجاج کرنے والے نیب کے افسران نے حکومت کے بنائے گئے کمیشن پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حاظر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے۔ انھوں نے نیب کے تمام تفتیشی افسران کے لیے سکیورٹی کا مطالبہ بھی کیا۔
اسی سلسلے میں افسران کے ایک وفد نے نیب چیئرمین سے ملاقات بھی کی جس میں ادارے کے ترجمان ظفر اقبال کے مطابق ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
’’(کامران فیصل) کیس سے متعلق ہر قسم کا قدم لینے کو تیار ہیں جس سے یہ معمہ حل ہو سکے۔ انھیں یقین دلایا ہے کہ جو بھی تحقیقاتی ٹیم بنے گی اس میں نیب کا ایک رکن ہوگا تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ یہ یک طرفہ تحقیقاتی عمل ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے نیب چیئرمین کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ بدھ کو عدالت کی سماعت میں رینٹل پاور کیس سے متعلق نیب کی پیش رفت کی رپورٹ پیش کریں۔