پاکستان میں گزشتہ سال صحافت سے وابستہ کم از کم سات افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے چار کا تعلق ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان سے ہے۔ رپورٹ میں بلوچستان کو صحافیوں کے لیے مہلک ترین صوبہ بھی قرار دیا گیا۔
اسلام آباد —
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لیے بدستور ایک خطرناک ملک ہے۔
تنظیم نے بدھ کو اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں گزشتہ سال صحافت سے وابستہ کم از کم سات افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے چار کا تعلق ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان سے ہے۔ رپورٹ میں بلوچستان کو صحافیوں کے لیے مہلک ترین صوبہ بھی قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں شدت پسند یا مسلح گروہ صحافیوں کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ’پی ایف یو جے‘ کے سابق صدر پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شدت پسند بلا شبہ صحافیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔
’’طالبان کا جو ذکر کیا گیا ہے اُس میں تو کوئی شک نہیں کہ اُنھوں نے کھلی دھمکیاں دیں اور فہرست بنائی ہے کہ پاکستانی صحافی جو اُن کے خلاف خبر دیتے ہیں اُن کو مار دیں گے اور ایسا ہوا بھی ہے۔‘‘
پرویز شوکت رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان صحافیوں کے لیے ایک مشکل جگہ ہے۔
’’ہم نے عالمی تنظیموں کے تعاون سے کئی صحافیوں کو حالیہ برسوں میں بلوچستان سے محفوظ علاقوں میں منتقل بھی کیا ہے۔‘‘
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید اپنے حالیہ بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور اس بارے میں ضروری قانون سازی بھی کی جائے گی۔
حکام کے مطابق دہشت گردی نے جہاں معاشرے کے دیگر طبقوں کو متاثر کیا، اس کے اثرات سے صحافی بھی نا بچ سکے۔
پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں یہ کہتی آئی ہیں کہ ملک کے شورش زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ضروری تربیت فراہم کرنے کے منصوبوں پر زور دیتی آئی ہیں اور اُن کا ماننا ہے کہ ایسی تربیت کا مقصد یہ ہے خطرات سے بچتے ہوئے صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
تنظیم نے بدھ کو اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں گزشتہ سال صحافت سے وابستہ کم از کم سات افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے چار کا تعلق ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان سے ہے۔ رپورٹ میں بلوچستان کو صحافیوں کے لیے مہلک ترین صوبہ بھی قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں شدت پسند یا مسلح گروہ صحافیوں کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ’پی ایف یو جے‘ کے سابق صدر پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شدت پسند بلا شبہ صحافیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔
’’طالبان کا جو ذکر کیا گیا ہے اُس میں تو کوئی شک نہیں کہ اُنھوں نے کھلی دھمکیاں دیں اور فہرست بنائی ہے کہ پاکستانی صحافی جو اُن کے خلاف خبر دیتے ہیں اُن کو مار دیں گے اور ایسا ہوا بھی ہے۔‘‘
پرویز شوکت رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان صحافیوں کے لیے ایک مشکل جگہ ہے۔
’’ہم نے عالمی تنظیموں کے تعاون سے کئی صحافیوں کو حالیہ برسوں میں بلوچستان سے محفوظ علاقوں میں منتقل بھی کیا ہے۔‘‘
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید اپنے حالیہ بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور اس بارے میں ضروری قانون سازی بھی کی جائے گی۔
حکام کے مطابق دہشت گردی نے جہاں معاشرے کے دیگر طبقوں کو متاثر کیا، اس کے اثرات سے صحافی بھی نا بچ سکے۔
پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں یہ کہتی آئی ہیں کہ ملک کے شورش زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ضروری تربیت فراہم کرنے کے منصوبوں پر زور دیتی آئی ہیں اور اُن کا ماننا ہے کہ ایسی تربیت کا مقصد یہ ہے خطرات سے بچتے ہوئے صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھا سکیں۔