پاکستانی پارلیمان نے ایک متفقہ قراداد کے ذریعے امریکی کمانڈوز کی جانب سے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں 2 مئی کو کیے گئے اس آپریشن کی مذمت کی ہے جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ہلاک ہوگئے تھے۔
مذکورہ آپریشن کے موضوع پر جمعہ کے روز ہونے والے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ 'ان کیمرہ ' اجلاس کے اختتام پر منظور کردہ 12 نکاتی قرارداد میں ایبٹ آباد آپریشن کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کیلیے ایک آزاد قومی کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے بعد وفاقی وزیرِاطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے صحافیوں کو قرارداد کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ قرارداد میں اراکینِ پارلیمان نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی حکمتِ عملی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرِ ثانی کرنے کی سفارش کی ہے۔
قرارداد میں حکومت سے ملکی آئین کی روشنی میں ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اعوان کے مطابق قرارداد میں امریکی فوجیوں کی جانب سے ایبٹ آباد میں یک طرفہ آپریشن کو پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی گئی ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ آئندہ اس طرح کی کوئی یک طرفہ کاروائی برداشت نہیں کی جائے گی۔
قرارداد میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے آئندہ پاکستانی سرزمین پر اس طرح کی یک طرفہ کاروائی کی صورت میں افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کی پاکستان کے ذریعے جانے والی سپلائی روک دی جائے۔
وفاقی وزیر نے صحافیوں کو بتایا کہ قرارداد میں امریکہ سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بھی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد ایوان میں وزیرِاعظم سید یوسف رضاگیلانی نے پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ متفقہ قرارداد میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو حقیقی معنوں میں تسلیم کرے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود بداعتمادی کی فضاء کو ختم کرنے کیلیے اقدامات اٹھائے۔ قرارداد میں اراکینِ پارلیمان نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کا خواہاں ہیں۔
قرارداد میں پارلیمان کی جانب سے قومی سلامتی اور خودمختاری کے دفاع کا عزم ظاہر کرتے ہوئے مسلح افواج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کیا گیا ہے۔
10 گھنٹوں سے زائد وقت تک جاری رہنے والے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران اراکینِ قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈپٹی ایئر چیف کی جانب سے ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے بریف کیا گیا۔
اجلاس کے دوران اراکینِ پارلیمان کی جانب سے عسکری حکام سے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے پاکستانی اداروں کی لاعلمی، یک طرفہ امریکی آپریشن اور اس پر پاکستانی عسکری اداروں کی جانب سے کوئی ردِ عمل نہ دیے جانے، پاک-امریکہ تعلقات، قبائلی علاقوں پر جاری امریکی ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے متعلق سخت سوالات بھی کیےگئے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف چوہدری نثار احمد خان نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ حکومت اجلاس میں ایک قدرے نرم قرارداد منظور کرانا چاہتی تھی تاہم ان کے بقول حزبِ مخالف کی جماعتوں کے دبائو پر اسے اپنے ارادے سے دستبردار ہونا پڑا۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ قراداد میں ایبٹ آباد آپریشن کی تحقیقات ایک آزاد کمیشن سے کرانے کا مطالبہ مسلم لیگ (ن) کے دبائو پر شامل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ کمیشن وزیرِاعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے تشکیل دیا جائے گا جس میں ان کے بقول ججز، وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی شمولیت بھی متوقع ہے۔
قائِد حزبِ اختلاف نے متفقہ قراداد کو ایک "مقدس مسودہ" قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ حکومت مذکورہ قرارداد پر سنجیدگی سے عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔