معروف سماجی کارکن انصار برنی کی تنظیم بھارت کی مغربی ریاست راجستھان کی جیل میں قید ضعیف العمر پاکستانی ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر خلیل چشتی کی انسانی ہمددری کی بنیاد پر رہائی کی کوششوں میں مصروف ہے۔
انصار برنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ وہ خود جمعرات کو بھارت جا رہے ہیں جہاں مختلف حکام سے ملاقاتوں میں وہ ڈاکٹر چشتی کی رحم کی اپیل پر بات چیت کریں گے۔
”ایک شخص جس کی عمر 81 سال ہو گئی ہے، وہ جسمانی طور پر معذور ہو چکا ہے، دل کے عارضے میں مبتلا ہے، اس نے تو ویسے ہی 19 سال سزا میں کاٹ لیے ہیں جس طریقے سے وہ (ڈاکٹر چشتی) اجمیر سے باہر نہیں نکل سکتے تھے، تو انسانی عظمت و وقار کے عظیم تر مفاد میں ان کی رحم کی اپیل کو ہمدردانہ طور پر غور کیا جائے۔“
اُنھوں نے کہا کہ بھارت میں سات روز قیام کے دوران اُن کی کوشش ہو گی کہ وہ حکام کو اس بات پر آمادہ کریں کہ اس سلسلے میں کسی حتمی فیصلے تک پاکستان میں مقیم ڈاکٹر چشتی کے اہل خانہ کو اُن سے ملنے کی اجازت دی جائے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ مائیکرو بیالوجی سے وابستہ رہنے والے ڈاکٹر خلیل چستی مارچ 1992ء میں اپنی علیل والدہ سے ملنے بھارتی شہر اجمیر شریف گئے تھے جہاں خاندانی جھگڑے کے دوران ایک شخص کی ہلاک کے بعد اُنھیں دیگر افراد سمیت قتل کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔
انصار برنی کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے چند روز بعد ڈاکٹر چشتی کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن راجستھان کی پولیس نے اُن کا پاسپورٹ اپنی تحویل میں ہی رکھا جس کی وجہ سے ڈاکٹر چشتی کی نقل و حرکت شہر کی حدود تک محدود ہو کر رہ گئی۔
دو ماہ قبل بھارتی عدالت نے اُن کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے اُنھیں عمر قید کی سزا سنائی جس کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اپیل کو بھی مسترد کر دیا گیا۔
انصار برنی نے رواں سال کے اوائل میں پاکستان میں گزشتہ 27 برس سے قید مبینہ بھارتی جاسوس گوپال داس کی رہائی میں بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اُنھوں نے جون میں 22 افراد کی صومالی قزاقوں کی قید سے رہائی میں بھی اہم کردار ادا کیا جن میں چار پاکستانیوں کے علاوہ چھ بھارتی شہری بھی شامل تھے۔ انصار برنی کے اس کردار پر بھارت میں بھی اُن کی پزیرآئی کی گئی۔