اپنی سالانہ رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سینکٹروں کی تعداد میں لوگ تشدد کے واقعات میں ہلاک ہوئے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ’ایچ آر سی پی‘ کا کہنا ہے کہ ملک میں حقوق کی خلاف ورزیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ایک بدلتا ہوا رجحان دیکھا جا رہا ہے کہ ںواز شریف انتظامیہ سیکورٹی کے نام پر سخت قانون سازی کو ترجیح دے رہی ہے۔ جس سے تنظیم کے عہدیداروں کے مطابق حقوق انسانی پر ’’شدید دباؤ‘‘ ہے۔
جمعرات کو جاری کردہ حقوق انسانی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سینکٹروں کی تعداد میں لوگ تشدد کے واقعات میں ہلاک ہوئے جن میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور مشتبہ افراد کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں 90 سے زائد امدادی اداروں کے کارکنوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اسی تعداد میں جبری گمشدگیوں کے واقعات بھی رپورٹ کیے گئے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق 2013 میں 130 کے قریب مسخ شدہ لاشیں بھی ملیں جو کہ مشتبہ طور پر لاپتہ افراد کی تھیں۔
تنظیم کے سینئیر عہدیدار آئی اے رحمان کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عسکریت پسندی کے خلاف کی جانے والی قانون سازی میں حکومت کو انسانی حقوق کے تحفظ کو لازماً مدنظر رکھنا چاہیے ورنہ ان کے بقول متوقع اہداف حاصل نا ہو پائیں گے۔
’’ہمیں پتا ہے کہ سیکورٹی چیلنجز ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ چیلنجز حقوق انسانی کو پس پشت رکھنے کے بغیر بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
نواز انتظامیہ کی طرف سے تحفظ پاکستان نامی قانونی مسودہ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے جس کی بعض شقیں حزب اختلاف اور حکومت کی اتحادی جماعت کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ترامیم کے بغیر اسے پارلیمان کے ایوان بالا سے منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔
تاہم حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انسانی حقوق کے رکن چوہدری محمد اشرف نے مجوزہ قانون پر تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا۔
’’کئی جگہ، کئی ملکوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو وہ ایمرجنسی لگا کر انسانی حقوق معطل کر دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو معطل نہیں ہیں۔ پھر جن لوگوں کو مارا جارہا ہے، ذبح کیا جاتا ہے، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کیا جاتا ہے تو کیا ان کے انسانی حقوق نہیں ہیں۔‘‘
آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں جبر سے مذہبی عقائد مسلط کرنے کا رجحان بھی مذہبی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہے۔
’’1948 میں بھی قنچیاں نکال کر عورتوں کے بال کاٹنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن سال ہا سال اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارے یہاں شمال میں جو شورش ہے، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ہے اس کا بھی بہت بڑا حصہ ہے اور اب اس انتہا تک پہنچ گئی ہے کہ مختلف اسلام کے فرقے ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے۔‘‘
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال میں صرف پنجاب میں 25 سو سے زائد جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں جبکہ ملک بھر میں 9 سو کے قریب خواتین نے خود کشیاں کیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں عزت کے نام پر قتل کا نشانہ بنیں۔
معروف لکھاری اور انسانی حقوق کی کارکن فوزیہ سعید کہتی ہیں کہ ان واقعات کی تعداد ان اعداد و شمار سے کافی زیادہ ہیں جوکہ ذرائع ابلاغ یا کہیں اور رپورٹ نہیں ہوتے۔
’’جب انصاف نہیں ملتا تو اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور پھر ہمارے یہاں بات ادھر نہیں رکتی بلکہ متاثرین کو دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔ تقریباً 85 فیصد جنسی تشدد کے واقعات میں متاثرین کو اپنا گھر، گاؤں چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونا پڑتا ہے اور ایک پورا سیاسی نظام ان پر اثر انداز ہوتا ہے تو پھر یہاں سے تنگ آکر لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں۔‘‘
ایچ آر سی پی گزشتہ سال ملک میں ہونے والے انتخابات اور اقتدار کی منتقلی کو پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے مثبت اور اہم قدم گردانا۔
جمعرات کو جاری کردہ حقوق انسانی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سینکٹروں کی تعداد میں لوگ تشدد کے واقعات میں ہلاک ہوئے جن میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور مشتبہ افراد کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں 90 سے زائد امدادی اداروں کے کارکنوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اسی تعداد میں جبری گمشدگیوں کے واقعات بھی رپورٹ کیے گئے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق 2013 میں 130 کے قریب مسخ شدہ لاشیں بھی ملیں جو کہ مشتبہ طور پر لاپتہ افراد کی تھیں۔
تنظیم کے سینئیر عہدیدار آئی اے رحمان کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عسکریت پسندی کے خلاف کی جانے والی قانون سازی میں حکومت کو انسانی حقوق کے تحفظ کو لازماً مدنظر رکھنا چاہیے ورنہ ان کے بقول متوقع اہداف حاصل نا ہو پائیں گے۔
’’ہمیں پتا ہے کہ سیکورٹی چیلنجز ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ چیلنجز حقوق انسانی کو پس پشت رکھنے کے بغیر بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
نواز انتظامیہ کی طرف سے تحفظ پاکستان نامی قانونی مسودہ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے جس کی بعض شقیں حزب اختلاف اور حکومت کی اتحادی جماعت کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ترامیم کے بغیر اسے پارلیمان کے ایوان بالا سے منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔
تاہم حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انسانی حقوق کے رکن چوہدری محمد اشرف نے مجوزہ قانون پر تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا۔
’’کئی جگہ، کئی ملکوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو وہ ایمرجنسی لگا کر انسانی حقوق معطل کر دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو معطل نہیں ہیں۔ پھر جن لوگوں کو مارا جارہا ہے، ذبح کیا جاتا ہے، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کیا جاتا ہے تو کیا ان کے انسانی حقوق نہیں ہیں۔‘‘
آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں جبر سے مذہبی عقائد مسلط کرنے کا رجحان بھی مذہبی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہے۔
’’1948 میں بھی قنچیاں نکال کر عورتوں کے بال کاٹنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن سال ہا سال اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارے یہاں شمال میں جو شورش ہے، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ہے اس کا بھی بہت بڑا حصہ ہے اور اب اس انتہا تک پہنچ گئی ہے کہ مختلف اسلام کے فرقے ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے۔‘‘
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال میں صرف پنجاب میں 25 سو سے زائد جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں جبکہ ملک بھر میں 9 سو کے قریب خواتین نے خود کشیاں کیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں عزت کے نام پر قتل کا نشانہ بنیں۔
معروف لکھاری اور انسانی حقوق کی کارکن فوزیہ سعید کہتی ہیں کہ ان واقعات کی تعداد ان اعداد و شمار سے کافی زیادہ ہیں جوکہ ذرائع ابلاغ یا کہیں اور رپورٹ نہیں ہوتے۔
’’جب انصاف نہیں ملتا تو اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور پھر ہمارے یہاں بات ادھر نہیں رکتی بلکہ متاثرین کو دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔ تقریباً 85 فیصد جنسی تشدد کے واقعات میں متاثرین کو اپنا گھر، گاؤں چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونا پڑتا ہے اور ایک پورا سیاسی نظام ان پر اثر انداز ہوتا ہے تو پھر یہاں سے تنگ آکر لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں۔‘‘
ایچ آر سی پی گزشتہ سال ملک میں ہونے والے انتخابات اور اقتدار کی منتقلی کو پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے مثبت اور اہم قدم گردانا۔