اسلام آباد پولیس کے سامنے بیان حلفی میں مسجد کے مؤذن نے الزام لگایا کہ رمشا کے خلاف توہینِ اسلام کا مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے شواہد میں رد و بدل کیا گیا۔
پاکستان میں ایک کمسن عیسائی لڑکی رمشا مسیح کے خلاف توہین اسلام کا مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے مبینہ طور پر شواہد میں رد و بدل کرنے والے مقامی مسجد کے امام کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
اسلام آباد کے ایک نواحی گاؤں کی مسجد کے امام خالد جدون کو اتوار کے روز ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے اُسے 14 دن کے ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے حکم صادر کیا۔
عدالت میں پیشی سے قبل صحافیوں سے مختصر گفتگو میں ملزم نے اپنے خلاف الزامات کو مسترد کیا۔ ’’میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ یہ سب من گھڑت ہے۔‘‘
رمشا کے خلاف شواہد میں رد و بدل کرنے کا انکشاف مسجد کے مؤذن حافظ زبیر نے ہفتہ کی شب پولیس کے سامنے پیش ہو کر کیا جس کے بعد خالد جدون کی گرفتاری عمل میں آئی۔
زبیر نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام مسجد نے شواہد میں رد و بدل اُس وقت کیا جب مشتعل ہجوم نے لڑکی سے برآمد ہونے والے خاکستر مواد سے بھرا تھیلا اُن کے حوالے کیا کیونکہ وہ مقامی عیسائی آبادی کو علاقے سے نکالنے چاہتے تھے۔
’’جب شاپر (تھیلا) اُن کو دیا گیا تو اُنھوں نے مسجد کے اندر سے دو، تین اوراق نکال کر اس میں ڈال دیے۔ میں نے کہا کہ قاری صاحب یہ آپ نے غلط کیا ہے تو (وہ) مجھے کہنے لگے کے حافظ صاحب یہ ان عیسائی لوگوں کے خلاف ثبوت اور ان کو نکالنے کا طریقہ ہے۔‘‘
توہینِ مذہب سے متعلق اس مقدمے کی ابتدائی کارروائی کے دوران عدالت میں جمع کرائی گئی ایک سرکاری طبی معائنے کی رپورٹ کے مطابق زیرِ حراست رمشا مسیح 14 سال کی ہے مگر اُس کی ذہنی نشوونما عمر کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
دو ہفتے قبل اس عیسائی لڑکی پر مشتعل اہل محلہ نے قرانی آیات کی بے حرمتی کا الزام لگا کر اُس کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا مگر پولیس نے عین وقت پر پہنچ کر رمشا کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔
بعد ازاں عوامی دباؤ کے تحت کمسن ہونے کے باوجود پولیس نے اُس کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کر کے اُسے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل بھیج دیا۔
اس واقعہ کے بعد رمشا کی رہائش والے علاقے میں آباد دیگر عیسائی خاندان بھی خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں سے نقل مکانی کر گئے۔
پاکستان علما کونسل کے چیئر مین علامہ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیر حراست امام خود توہین اسلام کا مرتکب ہوا ہے لہذا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیئے۔
’’میں سمجھتا ہوں کی یہ پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک کرب کا لمحہ ہے کہ کیا وہ شخص جس کے پیچھے کھڑے ہو کر ہم نماز پڑھتے ہیں اور جو ہمیں قرآن و سنت کا درس دیتا ہے، وہ ایک کمسن بیمار لڑکی کو پھنسانے کے لیے قرآن کریم کے اوراق خود راکھ میں ملا سکتا ہے۔ توہین اسلام تو اس شخص نے کی ہے جسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیئے۔‘‘
رمشا کے وکیل طاہر نوید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام مسجد کے خلاف الزامات نے ان کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ رمشا جیسی کم عمر لڑکی اسلام کی توہین کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
انھوں نے کہا کہ رمشا کی ضمانت کی درخواست پر عدالت پیر کو دوبارہ سماعت کرے گی اور امام مسجد کی گرفتاری سے ان کی موکلہ کی جلد رہائی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن یا ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے اُمید ظاہر کی ہے کہ امام مسجد کے خلاف الزامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے عدالت رمشا مسیح کو رہا کر دے گی اور خالد جدون کو سخت سزا دلوانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
’’اس واقعہ نے حکومت کو ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے کہ اس قانون میں اصلاحات کے لیے پیش رفت کرے کیونکہ اگر اب بھی ایسا نہ ہوا تو یہ کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔‘‘
سپریم کورٹ کے ایک سینیئر وکیل اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک سرکردہ رہنما انیس جیلانی کا خیال ہے کہ محض قانون میں تبدیلی سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاسکتی۔
’’میرے خیال میں اصل مسئلہ ہماری سوچ کا ہے۔ لوگ اس قدر خوفزدہ ہیں کہ عدلیہ ہو، سیاست دان ہوں یا پھر حکومت کوئی بھی اس (قانون کے غلط استعمال) کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اس موجودہ واقعہ میں بھی آپ نے دیکھا ہے کہ رمشا کی حمایت میں کھل کر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔‘‘
اسلام آباد کے ایک نواحی گاؤں کی مسجد کے امام خالد جدون کو اتوار کے روز ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے اُسے 14 دن کے ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے حکم صادر کیا۔
عدالت میں پیشی سے قبل صحافیوں سے مختصر گفتگو میں ملزم نے اپنے خلاف الزامات کو مسترد کیا۔ ’’میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ یہ سب من گھڑت ہے۔‘‘
رمشا کے خلاف شواہد میں رد و بدل کرنے کا انکشاف مسجد کے مؤذن حافظ زبیر نے ہفتہ کی شب پولیس کے سامنے پیش ہو کر کیا جس کے بعد خالد جدون کی گرفتاری عمل میں آئی۔
زبیر نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام مسجد نے شواہد میں رد و بدل اُس وقت کیا جب مشتعل ہجوم نے لڑکی سے برآمد ہونے والے خاکستر مواد سے بھرا تھیلا اُن کے حوالے کیا کیونکہ وہ مقامی عیسائی آبادی کو علاقے سے نکالنے چاہتے تھے۔
’’جب شاپر (تھیلا) اُن کو دیا گیا تو اُنھوں نے مسجد کے اندر سے دو، تین اوراق نکال کر اس میں ڈال دیے۔ میں نے کہا کہ قاری صاحب یہ آپ نے غلط کیا ہے تو (وہ) مجھے کہنے لگے کے حافظ صاحب یہ ان عیسائی لوگوں کے خلاف ثبوت اور ان کو نکالنے کا طریقہ ہے۔‘‘
توہینِ مذہب سے متعلق اس مقدمے کی ابتدائی کارروائی کے دوران عدالت میں جمع کرائی گئی ایک سرکاری طبی معائنے کی رپورٹ کے مطابق زیرِ حراست رمشا مسیح 14 سال کی ہے مگر اُس کی ذہنی نشوونما عمر کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
دو ہفتے قبل اس عیسائی لڑکی پر مشتعل اہل محلہ نے قرانی آیات کی بے حرمتی کا الزام لگا کر اُس کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا مگر پولیس نے عین وقت پر پہنچ کر رمشا کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔
بعد ازاں عوامی دباؤ کے تحت کمسن ہونے کے باوجود پولیس نے اُس کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کر کے اُسے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل بھیج دیا۔
توہین اسلام تو اس شخص نے کی ہے جسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیئے۔علامہ طاہر اشرفی
اس واقعہ کے بعد رمشا کی رہائش والے علاقے میں آباد دیگر عیسائی خاندان بھی خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں سے نقل مکانی کر گئے۔
پاکستان علما کونسل کے چیئر مین علامہ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیر حراست امام خود توہین اسلام کا مرتکب ہوا ہے لہذا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیئے۔
’’میں سمجھتا ہوں کی یہ پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک کرب کا لمحہ ہے کہ کیا وہ شخص جس کے پیچھے کھڑے ہو کر ہم نماز پڑھتے ہیں اور جو ہمیں قرآن و سنت کا درس دیتا ہے، وہ ایک کمسن بیمار لڑکی کو پھنسانے کے لیے قرآن کریم کے اوراق خود راکھ میں ملا سکتا ہے۔ توہین اسلام تو اس شخص نے کی ہے جسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیئے۔‘‘
رمشا کے وکیل طاہر نوید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام مسجد کے خلاف الزامات نے ان کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ رمشا جیسی کم عمر لڑکی اسلام کی توہین کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
انھوں نے کہا کہ رمشا کی ضمانت کی درخواست پر عدالت پیر کو دوبارہ سماعت کرے گی اور امام مسجد کی گرفتاری سے ان کی موکلہ کی جلد رہائی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن یا ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے اُمید ظاہر کی ہے کہ امام مسجد کے خلاف الزامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے عدالت رمشا مسیح کو رہا کر دے گی اور خالد جدون کو سخت سزا دلوانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
’’اس واقعہ نے حکومت کو ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے کہ اس قانون میں اصلاحات کے لیے پیش رفت کرے کیونکہ اگر اب بھی ایسا نہ ہوا تو یہ کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔‘‘
سپریم کورٹ کے ایک سینیئر وکیل اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک سرکردہ رہنما انیس جیلانی کا خیال ہے کہ محض قانون میں تبدیلی سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاسکتی۔
’’میرے خیال میں اصل مسئلہ ہماری سوچ کا ہے۔ لوگ اس قدر خوفزدہ ہیں کہ عدلیہ ہو، سیاست دان ہوں یا پھر حکومت کوئی بھی اس (قانون کے غلط استعمال) کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اس موجودہ واقعہ میں بھی آپ نے دیکھا ہے کہ رمشا کی حمایت میں کھل کر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔‘‘