|
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔ امید ہے کہ افغان حکام پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے یہ بیان جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران افغانستان کے ایک وزیر کی طرف سے پاکستان اور ٹی ٹی پی میں مذاکرات کی تجویز کے بعد سامنے آیا ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستان کو توقع ہے کہ افغان حکام ان دہشت گرد تنظیموں اور ان کی قیادت کے خلاف کارروائی کریں گے جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
پاکستان کئے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت میں نائب وزیرِ داخلہ محمد نبی عمری نے بدھ کو افغان شہر خوست میں ایک اجتماع میں گفتگو کے دوران تجویز دی تھی کہ پاکستان کی حکومت اور ان سے لڑنے والے بھائی (ٹی ٹی پی) آپس میں بات چیت کریں۔
طالبان کے نائب وزیرِ داخلہ نے یہ بات ایک ایسے وقت کی ہے جب اسلام آباد مسلسل کابل پر زوردے رہا ہے کہ وہ پاکستان مخالف عناصر اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں جو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سر زمین استعمال کر رہے ہیں۔
محمد نبی عمری نے بات چیت کا مشورہ دیتے ہوئے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
SEE ALSO:
کیا افغان طالبان پاکستانی فوج کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں کا خطرہ؛ ’پاکستان طالبان پر کارروائی کے لیے دباؤ ڈالتا رہے گا‘ پاکستان کے شمال میں عسکریت پسندی کی وجوہات کیا ہیں؟بھارت کے افغان طالبان سے رابطے، امریکہ میں بے چینیداعش خراسان کی ماسکو میں کارروائی؛ 'افغانستان میں نیا محاذ کھل سکتا ہے'افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ کسی بھی فرد یا تنظیم کو افغان سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی ا جازت نہیں دیں گے۔
افغانستان سے اگست 2021 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان برسرِ اقتدار آئے تھے۔ افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے تاہم یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اس کے بعد اسلام آباد نے متعدد بار اعلان کیا کہ ٹی ٹی پی سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔
پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ سرحد پار افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیمیں پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کابل میں برسرِ اقتدار طالبان سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ افغان حکومت کو ان عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔
جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے مزید کہا پاکستان ان تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑنے کے لیے پر عزم ہے جو پاکستان اور پاکستان چین دوستی کی علامتوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
حال ہی میں پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات ہوئے جن میں پاکستان کے جنوبی مشرقی ساحلی شہر گودار میں گوادار پورٹ اتھارٹی کمپلیکس، تربت میں پاکستان بحریہ کے اڈے اور شانگلہ میں داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجنئیرز کے قافلہ پر خودکش حملہ شامل ہے۔
اگست 2021 میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اسلام آباد کو عسکریت پسندی کم ہونے کی امید تھی۔ لیکن طالبان کی 20 برس بعد اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستان کی توقعات کے برعکس میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے افغان طالبان کو بار بار باور کرانے کے باوجود ٹی ٹی پی کے افغانستان میں مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں الزام عائد کیا تھا کہ دہشت گردی کا منبع افغانستان ہے۔ افغانستان میں برسرِ اقتدار عناصر اپنی سر زمین پر مسلح عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں آگاہ ہونے کے باوجود ان کی کارروائیاں روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔
ہفتہ وار بریفنگ میں دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ تین اپریل کو قازقستان میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی سلامتی کونسل کے سیکریٹریز کے اجلاس میں دیگر معاملات کے علاوہ افغانستان کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی۔