پاکستان میں ہر برس پانچ سال سے کم عمر کے تین لاکھ 52 ہزار بچے مختلف قابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ ان میں سے 35 فیصد کی موت کی وجہ غذائی قلت ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری شدو مد سے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر نہ صرف پاکستان اقوم متحدہ کا ملینیئم ڈویلپمنٹ گول حاصل کرنے میں ناکام رہے گا بلکہ اس مقصد میں کامیابی سے اس کا فاصلہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
ملینیئم ڈویلپمنٹ گول 1990ء ۔ 2015ء کے تحت پاکستان کو پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں دو تہائی کمی کرنا ضروری ہے۔
سیوو دی چلڈرن کے ڈائریکٹر ایڈووکیسی ارشد محمود نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔
’’اس وقت پاکستان میں ایک ہزار میں سے 87 بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہمارا ٹارگٹ تھا کہ اس کو ایک ہزار میں سے 41 تک لے کر آئیں، ابھی بھی پاکستان کو پچاس فیصد کمی کرنی ہے کہہ لیجیئے آئندہ 800 دنوں میں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ اس ضمن میں حکومت اور خصوصاً صوبائی حکومتوں کو سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جس پر عمل درآمد کرکے اس شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔
’’ایک تو فرنٹ لائن ہیلتھ ورکر تک ہر بچے کی رسائی ممکن بنائی جائے جس میں لیڈی ہیلتھ ورکر، کمیونٹی مڈوائف اور ویکسی نیٹرز شامل ہیں۔۔۔ایمونائزیشن کے نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور تیسری اہم بات غذائی قلت یا کمی پر قابو کی ضرورت ہے۔‘‘
رواں ہفتے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو درپیش مسائل پر توجہ مبذول کروانے کے لیے دنیا کے 66 ممالک میں 50 ہزار بچوں نے عالمی میراتھن دوڑ میں حصہ لیا۔ ’’بقا کی دوڑ‘‘ کے نام سے ہونے والی یہ بین الاقوامی دوڑ اسلام آباد میں بھی منعقد ہوئی جس میں مختلف شہروں سے آئے ہوئے 240 بچوں نے شرکت کی۔
سیوو دی چلڈرن کے عہدیدار ارشد محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر برس پانچ سال سے کم عمر کے تین لاکھ 52 ہزار بچے مختلف قابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ ان میں سے 35 فیصد کی موت کی وجہ غذائی قلت ہے۔
ان کے بقول صوبائی حکومتیں اس بارے میں حکمت عملی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے لیے بجٹ بھی مختص کریں تو پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گول حاصل کرنے کے لیے کم ازکم صحیح سمت پر گامزن ہو سکتا ہے۔
حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ بچوں کی صحت خصوصاً پولیو سے بچاؤ اور دیگر معمول کی ویکسینیز کے لیے تمام متعلقہ محکموں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر عملی اقدامات کے علاوہ معاشرے میں زچہ و بچہ کی بنیادی صحت سے متلعق آگاہی پیدا کرکے اور بہت سے فرسودہ رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے سے بھی بچوں کی شرح اموات میں کمی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ملینیئم ڈویلپمنٹ گول 1990ء ۔ 2015ء کے تحت پاکستان کو پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں دو تہائی کمی کرنا ضروری ہے۔
سیوو دی چلڈرن کے ڈائریکٹر ایڈووکیسی ارشد محمود نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔
’’اس وقت پاکستان میں ایک ہزار میں سے 87 بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہمارا ٹارگٹ تھا کہ اس کو ایک ہزار میں سے 41 تک لے کر آئیں، ابھی بھی پاکستان کو پچاس فیصد کمی کرنی ہے کہہ لیجیئے آئندہ 800 دنوں میں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ اس ضمن میں حکومت اور خصوصاً صوبائی حکومتوں کو سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جس پر عمل درآمد کرکے اس شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔
’’ایک تو فرنٹ لائن ہیلتھ ورکر تک ہر بچے کی رسائی ممکن بنائی جائے جس میں لیڈی ہیلتھ ورکر، کمیونٹی مڈوائف اور ویکسی نیٹرز شامل ہیں۔۔۔ایمونائزیشن کے نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور تیسری اہم بات غذائی قلت یا کمی پر قابو کی ضرورت ہے۔‘‘
رواں ہفتے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو درپیش مسائل پر توجہ مبذول کروانے کے لیے دنیا کے 66 ممالک میں 50 ہزار بچوں نے عالمی میراتھن دوڑ میں حصہ لیا۔ ’’بقا کی دوڑ‘‘ کے نام سے ہونے والی یہ بین الاقوامی دوڑ اسلام آباد میں بھی منعقد ہوئی جس میں مختلف شہروں سے آئے ہوئے 240 بچوں نے شرکت کی۔
سیوو دی چلڈرن کے عہدیدار ارشد محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر برس پانچ سال سے کم عمر کے تین لاکھ 52 ہزار بچے مختلف قابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ ان میں سے 35 فیصد کی موت کی وجہ غذائی قلت ہے۔
ان کے بقول صوبائی حکومتیں اس بارے میں حکمت عملی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے لیے بجٹ بھی مختص کریں تو پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گول حاصل کرنے کے لیے کم ازکم صحیح سمت پر گامزن ہو سکتا ہے۔
حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ بچوں کی صحت خصوصاً پولیو سے بچاؤ اور دیگر معمول کی ویکسینیز کے لیے تمام متعلقہ محکموں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر عملی اقدامات کے علاوہ معاشرے میں زچہ و بچہ کی بنیادی صحت سے متلعق آگاہی پیدا کرکے اور بہت سے فرسودہ رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے سے بھی بچوں کی شرح اموات میں کمی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔