پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے مبینہ استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
منگل کو ایک مبینہ منشیات فروش کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انتہائی سخت سکیورٹی انتظامات کے باوجود منشیات کس طرح سے تعلیمی اداروں میں پہنچ جاتی ہیں۔
صوبائی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صوبے کے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
جسٹس خان کا استفسار تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے صوبائی حکومت نے کیا اقدام کیے اور کیمپسز میں منشیات فروشی میں معاونت کرنے والے کسی اہلکار بھی گرفتار کیا گیا۔
ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے جسٹس خان نے ٹرائل کورٹ کو اس مقدمے کو دو ماہ میں نمٹانے کا حکم بھی دیا۔
حالیہ مہینوں میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سمیت ملک کی مختلف جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلبا میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
رواں سال اپریل میں مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں ایک طالب علم مشال خان کی ہلاکت کے بعد جب اس یونیورسٹی کے ہاسٹلز کی تلاشی لی گئی تو وہاں سے بھی پولیس کو مختلف نوعیت کی منشیات برآمد ہوئی تھیں۔
جون میں بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبائی محکمہ تعلیم کو ہدایت کی تھی کہ وہ صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کے طبی تجزے کرے تاکہ ان میں منشیات کے استعمال کا پتا چلایا جا سکے۔