پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی واشنگٹن میں امریکی حکام سے اہم ملاقاتوں کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری رہا۔امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے آرمی چیف کی ملاقاتوں کے حوالے سے وائس آف امریکہ کے سوال پر اپنے تحریری جواب میں کہا ہے کہ ’پاکستان اہم اتحادی ہے اورمحکمہ خارجہ اس کے ساتھ مختلف سطحوں پر رابطے میں رہتا ہے۔امریکہ پاکستان کے ساتھ خطے میں سکیورٹی امور اور دفاع کے شعبوں میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہے"۔
واضح رہے کہ جنرل عاصم منیر اپنے پہلے دورۂ امریکہ پر واشنگٹن ڈی سی میں ہیں ، جہاں بدھ کے روز انہوں نے امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات کی تھی اور امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے اس ملاقات کے بعد ایک مختصر پریس ریلیز جاری کی گئی تھی۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کی جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی پینٹاگان آمد پر استقبال کیا۔
پینٹاگان میں لائیڈ آسٹن سے جنرل عاصم منیر کی ملاقات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دونوں اعلیٰ حکام نے خطے کی سیکیورٹی صورتِ حال اور دفاع کے حوالے سے ممکنہ تعاون کے دو طرفہ امور پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
امریکی محکمۂ دفاع کے بیان میں اس ملاقات کے حوالے سے مزید کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں جب کہ پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے بھی اس ملاقات کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی رپورٹ کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر اتوار کو پاکستان سے امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے تھے اور منگل کی دوپہر امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی پہنچے۔
امریکہ پہنچنے سے قبل جنرل عاصم منیر نے دو روز برطانیہ میں گزارے۔ پاکستان کی فوج نے ان کے برطانیہ میں قیام کی تفصیلات جاری نہیں کی تھیں۔ بظاہر برطانیہ جانا ان کا نجی سفر تھا۔
واضح رہے کہ امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان کی منگل کو ہونے والے بریفنگ میں بھی جنرل عاصم منیر کا دورۂ امریکہ زیرِ بحث آیا تھا۔
پینٹاگان کے ترجمان میجر جنرل پیٹرک رائیڈر کا لائیڈ آسٹن سے جنرل عاصم منیر کی ملاقات کے حوالے سے کہنا تھا کہ ان کے پاس فی الوقت اس ملاقات میں زیرِ بحث آنے والے امور کی تفصیلات موجود نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایک اہم اتحادی ہونے کی حیثیت سے امریکی سینٹرل کمانڈ کے ذریعے اس سے قریبی رابطے میں رہتا ہے۔ خاص طور پر جب معاملہ انسدادِ دہشت گردی کا ہو۔
SEE ALSO: آرمی چیف کا دورۂ امریکہ؛ 'پینٹاگان اور جی ایچ کیو کا رابطہ منقطع نہیں ہوتا'اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلوان سمیت کانگریس کے ارکان سے ملاقاتوں کا بھی امکان ہے۔
خیال رہے کہ جنرل عاصم منیر کی امریکہ میں وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک سیکیورٹی کمپاؤنڈ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں 23 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستان نے اس حملے کے بعد افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے پاکستان میں ناظم الامور کو طلب کر کے احتجاج بھی کیا تھا۔
پاکستان ماضی میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد افغانستان پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہاں موجود عسکریت پسند پاکستان میں حملوں میں ملوث ہیں اور افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ البتہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ کے نمائندے اکمل داوی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام اس وقت پاکستان کے ساتھ ہمدری کا اظہار تو کر رہے ہیں لیکن ایسے امکانات موجود نہیں کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افغانستان میں ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ امریکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تمام تنازعات سفارتی طریقے سے حل کا خواہش مند ہے۔
میتھیو ملر سے جب بدھ کو بریفنگ میں سوال کیا گیا کہ امریکہ پاکستان کی کس طرح مدد کا کر سکتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی استعداد میں اضافے اور انصاف کی فراہمی کے لیے کئی پروگرامات پر مالی معاونت کی ہے۔
امریکہ کے خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے انسدادِ دہشت گردی کے سابق سربراہ رابرٹ گارنیئر کہتے ہیں کہ امریکہ، خاص طور پر موجودہ امریکی انتظامیہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں عسکری امور سے بیزار آ چکی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکہ کے مفادات پر حملوں میں واضح خاتمہ ہو رہا ہے۔ اس لیے امریکہ غیر جانب دار رہے گا۔
امریکی خفیہ اداروں کے اندازوں پر مبنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ اپنی کمزور ترین پوزیشن پر پہنچ چکی ہے اور اس کے دوبارہ ابھرنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔
SEE ALSO: ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا دوبارہ مطالبہ؛ 'پاکستان کابل انتظامیہ سے مایوس ہو رہا ہے'اس رپورٹ میں یہ اندازہ بھی لگایا گیا تھا کہ امریکہ کے لیے افغانستان میں داعش خدشات کا سبب ہو سکتی تھی۔ لیکن افغان طالبان کی کارروائیوں کے سبب داعش بھی انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔
افغانستان سے 2021 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے دوران طالبان کے برسرِ اقتدار پر کئی پاکستانیوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ ان میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی شامل تھے جنہوں نے قرار دیا تھا کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔
پاکستان میں انتخابات سے قبل قائم نگراں حکومت میں غیر قانونی تارکینِ وطن کا ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن پاکستان میں تخریب کاری میں ملوث رہے ہیں۔
دوسری جانب بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کی بڑی وجہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان پر دباؤ بڑھانا ہے کہ وہ وہاں موجود ٹی ٹی پی سمیت دیگر گروہوں کے خلاف کارروائی کرے۔
افغان طالبان متواتر یہ کہتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کا ایشو پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔