سینیٹ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے رابطے

پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی جس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی جلد بازی میں کسی آئینی ترمیم کے حق میں نہیں ہیں۔

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی جاری کردہ حتمی فہرست کے مطابق 52 نشستوں کے لیے 131 اُمیدوار میدان میں تھے لیکن چار اُمیدوار بلا مقابلہ منتخب ہونے کے بعد اب پانچ مارچ کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان 48 نشستوں کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

بلا مقابلہ منتخب ہونے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے فاروق نائیک اور سسی پلیجو جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا شامل ہیں۔

سینیٹ انتخاب میں ووٹوں کی خریدو فروخت جس کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے، اسے روکنے کے لیے حکومت نے آئین میں 22 ترمیم کے ذریعے خفیہ رائے شماری کی شرط کو ختم کرنے کی تجویز دی تھی جس پر تحریک انصاف اور بعض دیگر جماعتوں نے آمادگی ظاہر کی تھی۔

لیکن حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام (ف) نے انتخابات سے محض چند روز قبل ایسی ترمیم کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی سخت مخالفت کی ہے۔

سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے سے رابطوں میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

حکومتی ارکان نے جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر کے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کا موقف تھا کہ آئین میں ترمیم کا یہ وقت مناسب نہیں۔

اتوار کو پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی جس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی جلد بازی میں کسی آئینی ترمیم کے حق میں نہیں ہیں۔

"بڑا مسئلہ ہے جس کو ہم چھوٹی چیز اور چھوٹی بات پر قربان نہیں کر سکتے ہیں کہ چار دن میں بیٹھ کر ہم بائیسویں ترمیم کر دیں اور اس وجہ سے پیپلز پارٹی اور فضل الرحمن نے اس کی مخالفت کی ہے"۔

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سینیٹ کی نشستوں کے حوالے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو اپنی حمایت کا یقین دلا چکی ہے۔ سینیٹ میں اس وقت پیپلز پارٹی کی اکثریت اور یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ دوبارہ ایوان بالا کے چیئرمین کے عہدے کے لیے بھی اپنا زور لگائے گی۔

سینیئر تجزیہ کار عارف نظامی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ 22 ترمیم کا سب سے زیادہ فائدہ حکومت اور تحریک انصاف کو ہی ہونا تھا لیکن موجودہ صورتحال میں بننے والے سیاسی اتحاد کے سینیٹ کے انتخابات کے بعد تک برقرار رہنے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

"اس میں ایک بنیادی عنصر یہی تھا کہ اس میں (خفیہ رائے شماری میں) نقصان پی ایم ایل (این) اور پی ٹی آئی کا ہے کیونکہ یہ حکمران جماعتیں کے پی کے اور پنجاب اور وفاق میں ہیں اور اس میں جوڑ توڑ ہے، اس میں زرداری، ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اسی طرح سیٹیں نکال سکتی ہیں کہ یہ جوڑ توڑ ہے اسی لیے یہ اس عمل ( 22 ترمیم) کے خلاف ہیں۔"

سینیٹ کے کل ارکان کی تعداد 104 ہے جس میں سے نصف اپنی رکنیت کی معیاد پوری ہونے پر 11 مارچ کو سبکدوش ہونے جا رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپنے ارکان کے استعفے جمع کروا چکی ہے جو کہ اب تک منظور نہیں ہوئے اور وہ سینیٹ انتخابات میں صرف خیبر پختونخواہ سے حصہ لے رہی ہے جہاں اس کی اپنی حکومت ہے۔