مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا حکومت چھوڑ کر پارلیمان میں حزب اختلاف کی نشستوں پر آنا دراصل سندھ اور وفاق میں عبوری حکومتوں کے قیام میں موجودہ حزب اختلاف کے کردار کو کمزور کرنا ہے۔
اسلام آباد —
متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی بظاہر حزب اختلاف کی جماعتوں اور بالخصوص نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کے لیے پریشانی کا باعث ہے اور یہی وجہ ہے متحدہ کے اس عمل کو ’سیاسی چال‘ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما سینیٹر پرویز رشید نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کا حکومت چھوڑ کر پارلیمان میں حزب اختلاف کی نشستوں پر آنا در اصل سندھ اور وفاق میں عبوری حکومتوں کے قیام میں موجودہ حزب اختلاف کے کردار کو کمزور کرنا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے سربراہ چوہدری نثار متحدہ سے عبوری سیٹ اپ کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کریں گے۔
’’آئین میں حزب اختلاف کے سربراہ اور قائد ایوان نے نام تجویز کرنے ہیں اور متحدہ حزب اختلاف نے نہیں۔ اسی طرح سندھ میں بھی متحدہ نے حزب اختلاف کے رہنماء ارباب رحیم کے حق سلب کیے ہوئے ہیں۔ تو نہ تو ایم کیو ایم حزب اختلاف ہے اور نہ ہی اس کے بحیثیت کوئی حق ہے۔‘‘
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پارلیمان اور پارلیمان سے باہر تمام حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرکے دو اشخاص کے نام عبوری وزیراعظم کے لیے طے کر لیے ہیں اور جماعت کے رہنماؤں کے مطابق عنقریب ان کا اعلان کر دیا جائے گا۔
لیکن ایم کیو ایم کے مرکزی رہنماء سینیٹر طاہر مشہدی نے مسلم لیگ (ن) کے موقف کو رد کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ کو اس کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
’’ہم ملک کی تیسری بڑی جماعت ہیں۔ مشاورت کے بغیر عبوری حکومت لے آئیں دیکھتے ہیں کتنے دن چلتی ہے۔ بات وہ کرو جو سیاسی بات ہو۔ چلا کی پر مبنی بیان دینا کوئی اور بات ہوتی ہے اور زمینی حقیقت کی بنیاد پر سیاست کچھ اور ہوتی ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنول دلشاد کے مطابق آئین میں حالیہ 20 ترمیم کے بعد حزب اختلاف کے سربراہ تمام حزب اختلاف کی جماعتوں سے مشاورت کیے بغیر عبوری وزیراعظم کے لیے نام تجویز نہیں کر سکتے۔
’’اگر قومی اسمبلی کی اسپیکر نے متحدہ کو حزب اختلاف تسلیم کر لیا تو پھر تو چوہدری نثار کو مشاورت کرنا ہو گی اور اگر وہ سپریم کورٹ چلے گئے کہ حزب اختلاف کے سربراہ ہماری بات ہی نہیں سن رہے تو پھر آئینی بحران پیدا ہونے کا امکان ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل وزراء کی جانب سے عبوری وزیر اعظم کا نام رواں ہفتے پیش کرنے اور موجودہ اسمبلیاں 16 مارچ سے پہلے تحلیل کرنے کے اعلانات کیے گئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما سینیٹر پرویز رشید نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کا حکومت چھوڑ کر پارلیمان میں حزب اختلاف کی نشستوں پر آنا در اصل سندھ اور وفاق میں عبوری حکومتوں کے قیام میں موجودہ حزب اختلاف کے کردار کو کمزور کرنا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے سربراہ چوہدری نثار متحدہ سے عبوری سیٹ اپ کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کریں گے۔
’’آئین میں حزب اختلاف کے سربراہ اور قائد ایوان نے نام تجویز کرنے ہیں اور متحدہ حزب اختلاف نے نہیں۔ اسی طرح سندھ میں بھی متحدہ نے حزب اختلاف کے رہنماء ارباب رحیم کے حق سلب کیے ہوئے ہیں۔ تو نہ تو ایم کیو ایم حزب اختلاف ہے اور نہ ہی اس کے بحیثیت کوئی حق ہے۔‘‘
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پارلیمان اور پارلیمان سے باہر تمام حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرکے دو اشخاص کے نام عبوری وزیراعظم کے لیے طے کر لیے ہیں اور جماعت کے رہنماؤں کے مطابق عنقریب ان کا اعلان کر دیا جائے گا۔
لیکن ایم کیو ایم کے مرکزی رہنماء سینیٹر طاہر مشہدی نے مسلم لیگ (ن) کے موقف کو رد کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ کو اس کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
’’ہم ملک کی تیسری بڑی جماعت ہیں۔ مشاورت کے بغیر عبوری حکومت لے آئیں دیکھتے ہیں کتنے دن چلتی ہے۔ بات وہ کرو جو سیاسی بات ہو۔ چلا کی پر مبنی بیان دینا کوئی اور بات ہوتی ہے اور زمینی حقیقت کی بنیاد پر سیاست کچھ اور ہوتی ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنول دلشاد کے مطابق آئین میں حالیہ 20 ترمیم کے بعد حزب اختلاف کے سربراہ تمام حزب اختلاف کی جماعتوں سے مشاورت کیے بغیر عبوری وزیراعظم کے لیے نام تجویز نہیں کر سکتے۔
’’اگر قومی اسمبلی کی اسپیکر نے متحدہ کو حزب اختلاف تسلیم کر لیا تو پھر تو چوہدری نثار کو مشاورت کرنا ہو گی اور اگر وہ سپریم کورٹ چلے گئے کہ حزب اختلاف کے سربراہ ہماری بات ہی نہیں سن رہے تو پھر آئینی بحران پیدا ہونے کا امکان ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل وزراء کی جانب سے عبوری وزیر اعظم کا نام رواں ہفتے پیش کرنے اور موجودہ اسمبلیاں 16 مارچ سے پہلے تحلیل کرنے کے اعلانات کیے گئے ہیں۔