پولیٹکل ایجنٹ کی عدالت میں اس مقدمے کی پیشیوں کے دوران ڈاکٹر آفریدی کے وکلاء تاحال پیش نہیں ہوئے اور ان کا موقف تھا کہ یہ عدالت جرح کی بجائے جرگے کے فیصلے پر ہی عمل کرتی ہے۔
پشاور —
پاکستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم سے روابط اور دہشت گردوں کی معاونت کے جرم میں گرفتار ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اپنی حراست کے خلاف فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ٹربیونل میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہے۔
شکیل آفریدی پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنھوں نے امریکی اسپیشل فورس کی کارروائی میں مارے جانے والے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں بھی امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی معاونت کی تھی۔
گزشتہ سال خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ نے شکیل آفریدی کو کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے ساتھ روابط اور اس تنظیم کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں 33 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف انھوں نے کشمنر پشاور کی عدالت میں اپیل دائر کی۔
رواں سال اگست میں کشمنر پشاور نے شکیل آفریدی کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پولیٹکل ایجنٹ کو مقدمے کی کارروائی دوبارہ شروع کرنے کا کہا تھا۔
لیکن پولیٹکل ایجنٹ کی عدالت میں اس مقدمے کی پیشیوں کے دوران ڈاکٹر آفریدی کے وکلاء تاحال پیش نہیں ہوئے اور ان کا موقف تھا کہ یہ عدالت جرح کی بجائے جرگے کے فیصلے پر ہی عمل کرتی ہے۔
شکیل آفریدی کے وکلاء کی طرف سے منگل کو دائر کی جانے والی نظر ثانی کی اپیل میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ٹربیونل سے استدعا کی گئی ہے کہ کیوں کہ اُن کے موکل کی سزا کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے تو اُنھیں رہا کیا جائے۔
شکیل آفریدی کے وکلاء کے پینل میں شامل وکیل لطیف آفریدی نے منگل کو وائس آف امریکہ کو نظر ثانی کی اپیل سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کے پاس فوجداری کی دفعات کے تحت مقدمے چلانے یا اس کا فیصلہ سنانے کا اختیار نہیں ہے۔
’’ضابطہ فوجداری کی ایک خاص دفعہ ہے 196 کے تحت ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی یا مرکزی حکومت استغاثہ دائر کرے جس پر کارروائی ہو گی، اس طرح کسی کو بھی راستے سے پکڑ کر اس طرح کا مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایف سی آر ٹربیونل اس نظر ثانی کی اپیل پر فیصلہ نہیں سنا دیتا وہ پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔
شکیل آفریدی نے القاعدہ کے مفرور رہنما کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے کہنے پر جعلی ویکسینشن مہم بھی چلائی تھی، جس کے دوران بن لادن کے اہل خانہ کے ’ڈی این اے‘ نمونے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان اطلاعات کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنیسوں نے ڈاکٹر آفریدی کو مئی 2011ء میں گرفتار تھا لیکن بعد ازاں ان پر فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت مقامی کالعدم تنظیم سے روابط کے الزام میں سزا سنائی گئی۔
باڑہ تحصیل کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ محمد ناصر خان نے شکیل آفریدری کو 320,000 روپے (تقریباً 3,500 ڈالر) جرمانے کی بھی سزا سنائی تھی اور فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس رقم کی عدم ادائیگی کی صورت میں اُنھیں ساڑھے تین برس مزید قید میں رہنا ہو گا۔
شکیل آفریدی پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنھوں نے امریکی اسپیشل فورس کی کارروائی میں مارے جانے والے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں بھی امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی معاونت کی تھی۔
گزشتہ سال خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ نے شکیل آفریدی کو کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے ساتھ روابط اور اس تنظیم کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں 33 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف انھوں نے کشمنر پشاور کی عدالت میں اپیل دائر کی۔
رواں سال اگست میں کشمنر پشاور نے شکیل آفریدی کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پولیٹکل ایجنٹ کو مقدمے کی کارروائی دوبارہ شروع کرنے کا کہا تھا۔
لیکن پولیٹکل ایجنٹ کی عدالت میں اس مقدمے کی پیشیوں کے دوران ڈاکٹر آفریدی کے وکلاء تاحال پیش نہیں ہوئے اور ان کا موقف تھا کہ یہ عدالت جرح کی بجائے جرگے کے فیصلے پر ہی عمل کرتی ہے۔
شکیل آفریدی کے وکلاء کی طرف سے منگل کو دائر کی جانے والی نظر ثانی کی اپیل میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ٹربیونل سے استدعا کی گئی ہے کہ کیوں کہ اُن کے موکل کی سزا کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے تو اُنھیں رہا کیا جائے۔
شکیل آفریدی کے وکلاء کے پینل میں شامل وکیل لطیف آفریدی نے منگل کو وائس آف امریکہ کو نظر ثانی کی اپیل سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کے پاس فوجداری کی دفعات کے تحت مقدمے چلانے یا اس کا فیصلہ سنانے کا اختیار نہیں ہے۔
’’ضابطہ فوجداری کی ایک خاص دفعہ ہے 196 کے تحت ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی یا مرکزی حکومت استغاثہ دائر کرے جس پر کارروائی ہو گی، اس طرح کسی کو بھی راستے سے پکڑ کر اس طرح کا مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایف سی آر ٹربیونل اس نظر ثانی کی اپیل پر فیصلہ نہیں سنا دیتا وہ پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔
شکیل آفریدی نے القاعدہ کے مفرور رہنما کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے کہنے پر جعلی ویکسینشن مہم بھی چلائی تھی، جس کے دوران بن لادن کے اہل خانہ کے ’ڈی این اے‘ نمونے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان اطلاعات کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنیسوں نے ڈاکٹر آفریدی کو مئی 2011ء میں گرفتار تھا لیکن بعد ازاں ان پر فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت مقامی کالعدم تنظیم سے روابط کے الزام میں سزا سنائی گئی۔
باڑہ تحصیل کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ محمد ناصر خان نے شکیل آفریدری کو 320,000 روپے (تقریباً 3,500 ڈالر) جرمانے کی بھی سزا سنائی تھی اور فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس رقم کی عدم ادائیگی کی صورت میں اُنھیں ساڑھے تین برس مزید قید میں رہنا ہو گا۔