کھیپ میں شامل بعض بھیڑیں منہ کھر کی بیماری کا شکار ہو گئی تھیں، جس کی وجہ سے بحرین نے اُنھیں وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
آسٹریلوی نسل کی ہزاروں بھیڑیں پاکستان پہنچ گئی ہیں جنھیں بیماری کے خدشات کی وجہ سے بحرین نے حال ہی میں وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
آسٹریلوی کمپنی ویلارڈ رورل ایکسپورٹس کا ’اوشن ڈروور‘ نامی بحری جہاز 3 ستمبر کو کراچی کے پورٹ قاسم پر لنگر انداز ہوا تھا اور جمعرات کو اس کی روانگی متوقع ہے۔
پورٹ قاسم پر تعینات عہدے داروں نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 22,000 بھیڑوں میں سے نصف کو جہاز سے اُتارا جا چکا ہے۔
متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ بھیڑوں کو بندر گاہ پر اُتارنے سے قبل ماہرین مویشیاں ان کا مکمل طبی معائنہ کر رہے ہیں، تاکہ کوئی وبا زدہ بھیڑ مقامی منڈی میں منتقل نا ہو۔
آسٹریلوی کمپنی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ حیوانات کی تجارت سے متعلق قوائد و ضوابط کی مکمل پابندی کی جا رہی ہے۔
’’بندرگاہ پر مقامی حکام ان جانوروں کا معائنہ اور اُنھیں درآمد کے لیے موزوں قرار دے رہے ہیں۔‘‘
اطلاعات کے مطابق کھیپ میں شامل بعض بھیڑیں منہ کھر کی بیماری کا شکار ہو گئی تھیں، لیکن ویلارڈ کا کہنا ہے کہ جہاز پر ہلاک ہونے والی بھیڑوں کی تعداد آسٹریلوی حکومت کی متعین کردہ حد سے کم ہے۔
مویشیوں کی تجارت کرنے والی کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ جانوروں کی برآمد سے قبل متبادل منڈی کا بندوبست بھی کریں۔
’’ویلارڈ کی جانب سے چند دنوں میں متبادل منڈی کی نشاندہی اور بھیڑوں کو وہاں منتقل کرنا اس نظام کی افادیت کا ثبوت ہے۔‘‘
آسٹریلوی کمپنی ویلارڈ رورل ایکسپورٹس کا ’اوشن ڈروور‘ نامی بحری جہاز 3 ستمبر کو کراچی کے پورٹ قاسم پر لنگر انداز ہوا تھا اور جمعرات کو اس کی روانگی متوقع ہے۔
پورٹ قاسم پر تعینات عہدے داروں نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 22,000 بھیڑوں میں سے نصف کو جہاز سے اُتارا جا چکا ہے۔
متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ بھیڑوں کو بندر گاہ پر اُتارنے سے قبل ماہرین مویشیاں ان کا مکمل طبی معائنہ کر رہے ہیں، تاکہ کوئی وبا زدہ بھیڑ مقامی منڈی میں منتقل نا ہو۔
آسٹریلوی کمپنی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ حیوانات کی تجارت سے متعلق قوائد و ضوابط کی مکمل پابندی کی جا رہی ہے۔
’’بندرگاہ پر مقامی حکام ان جانوروں کا معائنہ اور اُنھیں درآمد کے لیے موزوں قرار دے رہے ہیں۔‘‘
اطلاعات کے مطابق کھیپ میں شامل بعض بھیڑیں منہ کھر کی بیماری کا شکار ہو گئی تھیں، لیکن ویلارڈ کا کہنا ہے کہ جہاز پر ہلاک ہونے والی بھیڑوں کی تعداد آسٹریلوی حکومت کی متعین کردہ حد سے کم ہے۔
مویشیوں کی تجارت کرنے والی کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ جانوروں کی برآمد سے قبل متبادل منڈی کا بندوبست بھی کریں۔
’’ویلارڈ کی جانب سے چند دنوں میں متبادل منڈی کی نشاندہی اور بھیڑوں کو وہاں منتقل کرنا اس نظام کی افادیت کا ثبوت ہے۔‘‘