انسدادِ پولیو کی کوششوں میں سوشل میڈیا کا 'منفی کردار'

انسدادِ پولیو کی مسلسل اور بھرپور مہم کی بدولت 2017ء میں ملک بھر سے پولیو کے صرف آٹھ کیس رپورٹ ہوئے جب کہ رواں برس اب تک ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی بدولت ماضی کی نسبت صورتِ حال میں قابل ذکر حد تک بہتری آئی ہے لیکن انسدادِ پولیو کے پروگرام سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں پر ویکسین سے متعلق کیا جانے والا منفی پروپیگنڈا وائرس پر قابو پانے کی کوششوں کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔

پاکستان میں 2014ء میں پولیو کے 306 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جو کسی ایک سال میں سامنے آنے والے کیسز کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔

لیکن انسدادِ پولیو کی مسلسل اور بھرپور مہم کی بدولت 2017ء میں ملک بھر سے پولیو کے صرف آٹھ کیس رپورٹ ہوئے جب کہ رواں برس اب تک ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

انسدادِ پولیو پروگرام کے قومی رابطۂ کار ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کا ہدف رواں سال ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ ہے اور اس سلسلے میں ایک ایک بچہ اور ایک ایک گھر بہت اہم ہے۔ لہذا ان کے بقول کوشش یہی ہے کہ کوئی بھی بچہ پولیو سے بچاؤ کی ویکیسن پینے سے رہ نہ جائے۔

لیکن ان کے بقول گزشتہ چند ماہ میں انھیں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے جو اس ہدف کے حصول کی کوششوں کو کسی حد تک متاثر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بدقسمی سے سوشل میڈیا پر گاہے گاہے چھوٹی چھوٹی گمراہ کن وڈیوز شیئر کی جاتی ہیں اور صحت اور صحت کے اصولوں سے متعلق لوگوں کی کم علمی اس پروپیگنڈے کو مزید پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔

"پچھلے کئی ماہ سے جو چیلنج ہمیں درپیش ہے وہ سوشل میڈیا کے حوالے سے اور خاص طور پر وٹس ایپ کے ذریعے جو چیزیں گردش کرتی ہیں۔ جعلی ویڈیوز جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ اس میں ویکسین کی کوالٹی اور اس کی تیاری پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے حلال یا حرام ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے جوابات سائنسی بنیادوں پر باقاعدہ مہیا کیے جا چکے ہیں اور ہم بتاتے رہتے ہیں۔"

فائل فوٹو

ڈاکٹر صفدر نے ایسی ہی ایک وڈیو کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ماہ سندھ کے علاقے نواب شاہ میں خسرے کی ویکسین کے بعد تین بچوں کی موت ہوگئی تھی جس کی تحقیقات سے پتا چلا کہ خرابی ویکسین میں نہیں تھی بلکہ جس طرح وہ لگائی گئی تھی اس کی وجہ سے بچوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔

"لیکن اس واقعے کی ویڈیو بنا کر اس پر جو آواز ڈب کی گئی اس میں اسے پولیو ویکسین کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ اس کی وجہ سے ہمارے صحت محافظ جب گھروں میں جاتے تھے تو انھیں پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔"

ان کے بقول ایسی غلط ویڈیوز اور منفی تشہیر کی وجہ سے بچوں کو ویکیسن پلانے پر والدین کو رضامند کرنے کے لیے عملے کو اضافی کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔

ڈاکٹر صفدر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایسی من گھڑت چیزوں سے نمٹنے کے لیے ان کا محکمہ متعلقہ اداروں سے رابطے میں رہتا ہے اور وہ اس ضمن میں بھرپور معاونت بھی کر رہے ہیں۔