پاکستان کے مرکزی بینک نے آئندہ دو ماہ کے لیے شرح سود میں اعشاریہ پانچ فیصد کمی کر کے اس کی حد چھ فیصد مقرر کر دی ہے۔
ہفتہ کو اسٹیٹ بینک کے گورنر اشرف محمود وتھرا کی طرف سے مالیاتی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کی تفصیل ایک سرکاری بیان میں جاری کی گئی۔
عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث ملک میں افراطِ زر کی شرح میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی، جس کے باعث شرح سود کو کم کرنا ممکن ہوا۔
بیان کے مطابق ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ شروع ہونے سرمایہ کاری کا ماحول مزید بہتر ہو گا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری بھی متوقع ہے۔
ادھر وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایک بیان میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود میں کمی کو سراہتے ہوئے اسے ملکی معیشت میں استحکام کی عکاسی قرار دیا ہے۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر خزانہ کی طرف سے اعلان کے بعد مالی سال 2015ء کے لیے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو 21 ارب ڈالر تک لے جانے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے حکومتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں دلچسپی اور سرمایہ کاری سے شروع ہونے والی سرگرمیوں سے لوگوں کو معاشی اعتبار سے خاطر خواہ فائدہ ہو گا۔
تاہم بعض ناقدین کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی رفتار وہ نہیں جس کا حکومت نے دعویٰ کیا تھا جب کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کے حالات زندگی میں کوئی قابل ذکر بہتر دیکھنے میں نہیں آرہی۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے علاوہ ملک میں محصولات کا دائرہ بڑھا رہی ہے اور حکام کے بقول ملکی معیشت کو اس کے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات کی بدولت ماضی کی نسبت معاشی صورتحال میں بہت بہتری واقع ہوئی ہے۔