پاکستان کے حکمران اتحاد میں شامل مذہبی و سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کی کال پر ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں اتوار کو ہڑتال رہی جب کہ اس کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے اہم شاہراہوں پر احتجاج کیا جس کے باعث ٹریفک کی روانی میں خلل پڑا۔
یہ احتجاج جماعت کے صوبائی جنرل سیکرٹری خالد سومرو کی ہلاکت کے خلاف کیا گیا جنہیں ہفتہ کو سکھر میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا۔
خالد سومرو سابق سینیٹر بھی تھے اور ان کا شمار جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
اتوار کو خیبر پختونخواہ، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر اس جماعت کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے۔
اس موقع پر ان شہروں میں کارروباری سرگرمیاں معطل رہیں جب کہ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کی برابر تھی۔
احتجاجیوں نے کئی اہم شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے اور ٹائر جلا کر اسے بند کیے رکھا۔
بلوچستان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق یہاں جمعیت کے کارکنوں نے سڑکوں پر آنے والی کئی گاڑیوں کو نقصان بھی پہنچایا اور لوگوں کو نقل و حرکت سے منع کیا۔
کوئٹہ سے چمن جانے والی ریل گاڑی کو بھی گلستان کے قریب مظاہرین نے زبردستی روک دیا۔
کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد جانے والی اہم شاہراہوں پر بھی ٹریفک اس احتجاج کے باعث معطل رہی۔ اطلاعات کے مطابق چمن کے راستے افغانستان آنے جانے والی گاڑیوں کی آمدو رفت کا سلسلہ بھی متاثر ہوا۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمٰن نے اس احتجاج کی کال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے کارکن پورے ملک میں نکلیں، پہیہ جام کریں لیکن یہ احتجاج پرامن ہوگا۔
اس جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر حالیہ برسوں میں متعدد ہلاکت خیز حملے ہو چکے ہیں جب کہ مولانا فضل الرحمٰن پر بھی گزشتہ ماہ کوئٹہ ہی میں ایک خودکش حملہ کیا گیا۔
اس حملے میں مولانا تو محفوظ رہے لیکن اس جلسے میں موجود کم از کم تیس افراد بم دھماکے میں مارے گئے۔