امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے افغان طالبان کو امن مذاکرات میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی، لیکن ان پر افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ڈالا۔
محکمہ دفاع کے انسپکٹر جنرل کی جانب سے اس ہفتے پیش کی جانے والی سہ ماہی رپورٹ میں دفاعی انٹیلیجنس ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان عسکری گروہوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی ہے، جو افغانستان میں حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
محکمہ دفاع، محکمہ خارجہ اور امریکہ کی بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی کے تعاون سے تیار کردہ یہ رپورٹ کانگریس کو افغانستان میں جاری امریکی فریڈم سینٹینل آپریشن کے متعلق باخبر رکھنے کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے مابین ایک معاہدہ طے پایا، جس کے مطابق، امریکہ افغانستان میں تعینات اپنی فوجوں میں کمی کرے گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان چین اور روس نے اس معاہدے کے حق میں بیانات دیے۔
رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات میں بھارتی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا اور افغانستان سے عدم استحکام کے اثرات کو پاکستان پر اثر انداز ہونے سے بچانا شامل ہیں۔ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ طالبان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ افغانستان میں پاکستانی مفادات کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اور پاکستان افغان گروہوں کے درمیان امن مذاکرات پر اس طریقے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کرے گا جو پاکستان کے مفاد میں ہو۔
دفاعی انٹیلیجنس ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی اور شورش پسندی کو روکنے کے لیے افغانستان بارڈر کے قریب آپریشنز جاری رکھے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کو روکنے اور اپنے بارڈر کو محفوظ کرنے کے لئے پاکستان یکطرفہ اقدامات بھی اٹھا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان نے بارڈر پر رکاوٹیں کھڑی کی ہیں جس کی وجہ سے افغانستان پاکستان سرحد پر تعینات سیکورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ متنازع بارڈر افغانستان اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کو کمزور کرتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کے اندرونی آپریشنز کا تعلق ہے، ان کا ہدف پاکستانی عسکریت پسند گروہ ہیں۔ وقتاً فوقتاً ان آپریشنز کا مقصد افغان عسکری گروہوں کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کم کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی سرحد پر کی جانے والی کارروائیوں کا ترجیحی مقصد عسکریت پسندوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ لیکن، اس بات کی ایک طویل تاریخ موجود ہے کہ پاکستان نے عسکریت پسندوں کو افغانستان اور پاکستان بارڈر کے دونوں اطراف آنے جانے کی اجازت دی۔
رپورٹ میں کووڈ نائنٹین کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے بارڈر کو بند کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پاکستان نے کووڈ نائنٹین کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بارڈر سیل کردیا۔ 20 مارچ کو پاکستان نے عارضی طور پر چمن بارڈر راہداری کھول دی تاکہ انسانی ہمدردی کے تحت سامان کی ترسیل ہوسکے۔ لیکن، اسے تین دن کے بعد دوبارہ بند کردیا گیا۔ بارڈر کے راستے بند ہونے کی وجہ سے براہ راست تجارت کو نقصان ہوا۔
رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ فروری میں اقوام متحدہ نے پاکستان کے افغان مہاجرین کو پناہ دینے کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان کی تعریف کی۔
پورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے، واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام نے کہا کہ اس رپورٹ میں حقائق کو بیان کیا گیا ہے اور اس میں کوئی خاص نئی بات نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن مذاکرات کی حمایت کی ہے اور وہ طالبان پر ایک حد تک دباؤ ڈال سکتا ہے۔ بقول ان کے، طالبان ایک بہت ہی آزاد گروپ ہے۔
ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ اگرچہ امریکہ کو پاکستان کی ماضی کی پالیسیوں کے حوالے سے تحفظات ہیں، لیکن امریکہ اور پاکستان اس وقت افغان امن کے حصول کی خاطر ایک مشترکہ مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے مل جل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بدستور اپنی پالیسی پر قائم ہے، کیونکہ پاکستان کے مطابق، اگر وہ طالبان سے روابط یا تعلقات نہ رکھتا تو آج اس عسکری گروپ کو افغانستان میں امن مذاکرات پر راضی کرنے میں کامیاب نہ ہوتا۔
مارون وائن بام نے کہا کہ اس رپورٹ میں کچھ ایسا نہیں ہے جو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر اثرانداز ہوسکے، کیونکہ دونوں ممالک افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے، سینٹر فار گلوبل پالیسی سیے منسلک ڈائریکٹر اینالیٹیکل، ڈاکٹر کامران بخاری نے کہا کہ افغانستان میں امن مذاکرات کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان پر دباؤ ڈالے کہ وہ امن عمل کو آگے بڑھائیں۔
دوسری جانب، انھوں نے کہا کہ امریکہ نے طالبان کو ایک فریق کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے اور ان کے ساتھ بات چیت بھی چل رہی ہے۔ مذاکرات میں شرکت کے ساتھ ساتھ امریکا نے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز اور طالبان نے اپنی کارروائیاں بھی جاری رکھی ہیں۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ تشدد کی کارروائیوں سے ان کا اثر رسوخ بڑھتا ہے۔
کامران بخاری نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرتے ہوئے اس کے مفادات کی حفاظت کی جائے اور اگر وہ امریکی پالیسی کے مطابق افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے تو اس کے بدلے میں وہ امریکہ سے کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں طالبان بہت زیادہ مضبوط ہو جائیں تو یہ پاکستان کے لئے بھی اچھا نہ ہوگا۔ خطے کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ پاکستان کی چین سے بڑھتی ہوئی دوستی پر تحفظات بھی رکھتا ہے۔
کامران بخاری نے کہا کہ ایسے حالات میں پاکستان کو فہم و فراست سے کام لینا ہوگا۔
واشنگٹن میں وڈروولسن کے ایشیا پروگرام سے منسلک ماہر اور جنوبی ایشیا کے ایسوسی ایٹ، مائیکل کوگلمن نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور افغان حکومت دونوں چاہتے ہیں کہ طالبان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ پر تشدد کارروائیاں روک دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ پاکستان جس کا طالبان پر اثر و رسوخ ہے، اس سے کہا جائے کہ وہ وہ طالبان پر دباؤ ڈالے، تاکہ عسکری گروپ کی پرتشدد کارروائیوں میں کمی آئے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں جب پاکستان طالبان پر تشدد کی کارروائیاں ختم کرنے کے لیے دباؤ نہ ڈالے، تو افغانستان میں امن مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔