پاکستان سپریم کورٹ نے کرونا وائرس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران حکومتی ٹیم اور اس کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا، اور وفاق اور سندھ کی حکومتوں کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے از خود نوٹس کی سماعت کی اور جسٹس گلزار نے ڈاکٹر ظفر مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹنانے کا حکم دینے کا ارادہ ظاہر کیا، تاہم بعد میں عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے حکم میں ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری، پھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور اب موجودہ سپریم کورٹ کی جانب سے حکومتی کام میں مداخلت پر مختلف خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر فواد چودہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج دنیا کے دوسرے ملکوں میں اس وبا سے نمٹنے کی کوششوں اور پاکستان میں اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان کی کارکردگی کہیں بہتر نظر آئے گی۔ جس نے فوری طور پر اپنی سرحدیں بند کر کے اور دوسرے اقدامات کر کے اس کے پھیلاؤ پر بڑی حد تک کنٹرول کیا اور آج اس کارکردگی کا نتیجہ سامنے ہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پارلیمانی حکومت کے لئے سپریم کورٹ کا موقف ہے۔ جسے سیاسی منفعت کے لئے بعض حلقے اچھال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عدالت کا بہت احترام کرتی ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر شاہد اقبال کامران کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال کی سنگینی کا خاطر خواہ احساس اور ضرورت کے مطابق سنجیدگی متعلقہ حلقوں موجود نہیں ہے۔
تاہم انہوں کہا کہ اصولی طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے اس قسم کی مداخلت مناسب نہیں ہے۔ یہ ملک کے سیاسی سیٹ اپ کے لئے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن اس مداخلت کو صرف ایک ادارے تک محدود نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اور بھی ادارے ہیں، جو اپنے اپنے طور پر بڑے بڑے فیصلے کر رہے ہیں لیکن ان پر کوئی بات نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا چونکہ ملک میں اعتماد کی فضا نہیں ہے اس لئے سیاستدان اس شدید بحرانی کیفیت میں بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ اور ہر فریق اپنے اپنے اہداف پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کے ایک سینئر عدالتی نامہ نگار قیوم صدیقی نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتی مداخلت ہے۔ اور دنیا کے کسی بھی ملک میں ابھی تک کسی بھی عدالت نے وائرس کے حوالے سے حکومتی کاموں میں اس نوعیت کی کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔
انہوں کہا کہ یہ اچھی روایت نہیں ہے۔ اس سے سیاسی سیٹ اپ پر غلط اثرات پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی۔ مسلم لیگ نون اور اب تحریک انصاف کی حکومتوں کو اپنے اپنے دور کے چیف جسٹس صاحبان یا سپریم کورٹ کی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ بات مستقبل میں خود سپریم کورٹ کے لئے بہتر نہیں ہو گی۔