عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمات میں گواہان کے لیے ایک فعال تحفظ کے نظام کا نا ہونا بھی دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر ججوں سے خطاب میں انصاف کی فراہمی میں موجودہ اعلیٰ عدلیہ کے کردار کو سراہتے ہوئے اس افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے بقول ناقص تحقیقات اور لاپرواہ استغاثہ کی وجہ سے دہشت گردی اور فرقہ واریت کے مقدمات میں ایک بڑی تعداد میں شدت پسند چھوٹ جاتے ہیں جس سے عدالتوں کے وقار میں کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی طرف سے ایسے مقدمات میں گواہان کے لیے ایک فعال تحفظ کے نظام کا نا ہونا بھی دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔
چیف جسٹس کی جانب سے ان مسائل کی نشاندہی ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب گزشتہ روز ہی کل جماعتی کانفرنس سے منظوری کے بعد نواز شریف حکومت پاکستانی طالبان سے مذاکرات کی تیاریاں کر رہی ہے۔
قانونی ماہر بابر ستار نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گواہان کو تحفظ فراہم کر نے سے متعلق قانون موجود ہے مگر ریاست کی طرف سے اس متعلق اقدامات غیر تسلی بخش رہے ہیں۔
’’جس قسم کا ماحول بن چکا ہے کہ ہمارے بیچ دہشت گرد بیٹھے ہیں جو کسی وقت حملہ کر سکتے ہیں تو ہمارے ریاست کے لوگ ۔۔ استغاثہ، جج، تفتیشکارہی محفوط نہیں، جج مارے گئے، پراسیکیوٹر مارے گئے۔ گواہان کا تحفظ تو بعد میں آتا ہے۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے رکن سید ظفر علی شاہ کا اس بار میں کہنا تھا۔
’’ اگر کسی کورٹ میں کوئی گواہ یا اس کا وکیل کہتا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے تو عدالت ریاست یا متعلقہ ادارے کو تحفظ فراہم کرنے کا کہے گی۔‘‘
گزشتہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے دور میں دہشت گردی سے متعلق چند قوانین میں تبدیلی لائی گئی جس کے تحت خفیہ اداروں کو الیکٹرانک طریقوں سے معلومات اکٹھا کرنے کی نا صرف اجازت دی گئی بلکہ حاصل ہونے معلومات کو عدالت بطور شواہد تسلیم بھی کرے گی۔
تاہم بابر ستار کہتے ہیں کہ پاکستان میں تمام ادوار میں حکومتوں کی کوششیں صرف اس بات پر مرکوز رہی کہ شواہد سے متعلق قوانین میں نرمی لاتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی مخصوص عدالتوں کے قیام سے جلد سے جلد سزائیں حاصل کی جائیں۔
’’کچھ فورنزک لیبز بنیں مگر ان میں ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ نہیں ہوتے۔ پروسیکیوشن کے ڈیپارٹمنٹ بھی بنے مگر ادارے کی سطح پر ایسے کوئی نظام نہیں کہ اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پروسیکیوٹر سمیت ایک ٹیم بنے تا کہ پتہ چل سکے کیا ہو رہا ہے۔‘‘
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں اور حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ اس سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کی ایک پالیسی تیار کی جارہی ہے جن میں خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر ان کے بقول غیر معمولی توجہ دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی طرف سے ایسے مقدمات میں گواہان کے لیے ایک فعال تحفظ کے نظام کا نا ہونا بھی دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔
چیف جسٹس کی جانب سے ان مسائل کی نشاندہی ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب گزشتہ روز ہی کل جماعتی کانفرنس سے منظوری کے بعد نواز شریف حکومت پاکستانی طالبان سے مذاکرات کی تیاریاں کر رہی ہے۔
قانونی ماہر بابر ستار نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گواہان کو تحفظ فراہم کر نے سے متعلق قانون موجود ہے مگر ریاست کی طرف سے اس متعلق اقدامات غیر تسلی بخش رہے ہیں۔
’’جس قسم کا ماحول بن چکا ہے کہ ہمارے بیچ دہشت گرد بیٹھے ہیں جو کسی وقت حملہ کر سکتے ہیں تو ہمارے ریاست کے لوگ ۔۔ استغاثہ، جج، تفتیشکارہی محفوط نہیں، جج مارے گئے، پراسیکیوٹر مارے گئے۔ گواہان کا تحفظ تو بعد میں آتا ہے۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے رکن سید ظفر علی شاہ کا اس بار میں کہنا تھا۔
’’ اگر کسی کورٹ میں کوئی گواہ یا اس کا وکیل کہتا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے تو عدالت ریاست یا متعلقہ ادارے کو تحفظ فراہم کرنے کا کہے گی۔‘‘
گزشتہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے دور میں دہشت گردی سے متعلق چند قوانین میں تبدیلی لائی گئی جس کے تحت خفیہ اداروں کو الیکٹرانک طریقوں سے معلومات اکٹھا کرنے کی نا صرف اجازت دی گئی بلکہ حاصل ہونے معلومات کو عدالت بطور شواہد تسلیم بھی کرے گی۔
تاہم بابر ستار کہتے ہیں کہ پاکستان میں تمام ادوار میں حکومتوں کی کوششیں صرف اس بات پر مرکوز رہی کہ شواہد سے متعلق قوانین میں نرمی لاتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی مخصوص عدالتوں کے قیام سے جلد سے جلد سزائیں حاصل کی جائیں۔
’’کچھ فورنزک لیبز بنیں مگر ان میں ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ نہیں ہوتے۔ پروسیکیوشن کے ڈیپارٹمنٹ بھی بنے مگر ادارے کی سطح پر ایسے کوئی نظام نہیں کہ اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پروسیکیوٹر سمیت ایک ٹیم بنے تا کہ پتہ چل سکے کیا ہو رہا ہے۔‘‘
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں اور حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ اس سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کی ایک پالیسی تیار کی جارہی ہے جن میں خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر ان کے بقول غیر معمولی توجہ دی گئی ہے۔