عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے سے منسلک ظفر احمد قریشی کو دانستہ طور پر تحقیقات سے دور رکھا گیا جو کہ انصاف کی فراہمی میں خلل رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش تھی۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) میں بدعنوانی اور مالی بے ضابطگیوں کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیرتجارت مخدوم امین فہیم اور قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے موجودہ چیئرمین قمر زمان چودھری سمیت متعدد اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔
جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی طرف سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ قمر زمان چودھری اور وفاقی ٹیکس محتسب عبدالرؤف چودھری نے مقدمے کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔
عدالت عظمیٰ نے ایاز خان نیازی کی بطور چیئرمین این آئی سی ایل تقرری کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔
جن افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ان میں سابق وفاقی سیکرٹری تجارت سلمان غنی، سابق سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اسماعیل قریشی، سابق سیکرٹری کابینہ نرگس سیٹھی، وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری خوشنود لاشاری، کمپنی کے ایک سابق ڈائریکٹر امین قاسم دادا اور ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل ملک محمد اقبال شامل ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے سے منسلک ظفر احمد قریشی کو دانستہ طور پر تحقیقات سے دور رکھا گیا جو کہ انصاف کی فراہمی میں خلل رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش تھی۔
نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ میں مبینہ بدعنوانی کی خبریں اس وقت منظر عام پر آئیں جب کراچی کے علاقے کورنگی میں دس ایکڑ کے ایک پلاٹ کی خریداری میں مبینہ طور پر مالی بے ضابطیگوں میں ایاز خان نیازی اور ان کے ساتھ دیگر افراد کے نام سامنے آئے۔
انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت میں استغاثہ نے یہ بیان دیا تھا کہ اس وقت کے سیکرٹری تجارت ظفر محمود نے 2010ء میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کو ایک تحریری شکایت ارسال کی تھی جس میں این آئی سی ایل کی طرف سے مختلف اوقات میں خریدی گئی اراضی کی تفصیلات کی تحقیقات کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اس درخواست میں اگست 2009ء میں کورنگی میں پلاٹ کی خریداری میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں اور خرد برد کرنے پر مقدمات درج کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں اس وقت کے نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹیڈ کے چیئرمین، بورڈ آف ڈائریکٹرز، این آئی سی ایل کی سرمایہ کاری کمیٹی، اور دیگر افراد کو مجرمانہ انداز میں اعتماد کو ٹھیس پہنچانے، بے ضابطگی، دھوکہ دہی اور جعل سازی کے مرتکب ہوئے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے اس معاملے کا از خود نوٹس اُس وقت لیا جب شفاف طرز حکمرانی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے 2010ء میں این آئی ایل سی میں اربوں روپے کے گھپلوں کی نشاندہی کی تھی۔
جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی طرف سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ قمر زمان چودھری اور وفاقی ٹیکس محتسب عبدالرؤف چودھری نے مقدمے کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔
عدالت عظمیٰ نے ایاز خان نیازی کی بطور چیئرمین این آئی سی ایل تقرری کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔
جن افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ان میں سابق وفاقی سیکرٹری تجارت سلمان غنی، سابق سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اسماعیل قریشی، سابق سیکرٹری کابینہ نرگس سیٹھی، وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری خوشنود لاشاری، کمپنی کے ایک سابق ڈائریکٹر امین قاسم دادا اور ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل ملک محمد اقبال شامل ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے سے منسلک ظفر احمد قریشی کو دانستہ طور پر تحقیقات سے دور رکھا گیا جو کہ انصاف کی فراہمی میں خلل رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش تھی۔
نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ میں مبینہ بدعنوانی کی خبریں اس وقت منظر عام پر آئیں جب کراچی کے علاقے کورنگی میں دس ایکڑ کے ایک پلاٹ کی خریداری میں مبینہ طور پر مالی بے ضابطیگوں میں ایاز خان نیازی اور ان کے ساتھ دیگر افراد کے نام سامنے آئے۔
انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت میں استغاثہ نے یہ بیان دیا تھا کہ اس وقت کے سیکرٹری تجارت ظفر محمود نے 2010ء میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کو ایک تحریری شکایت ارسال کی تھی جس میں این آئی سی ایل کی طرف سے مختلف اوقات میں خریدی گئی اراضی کی تفصیلات کی تحقیقات کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اس درخواست میں اگست 2009ء میں کورنگی میں پلاٹ کی خریداری میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں اور خرد برد کرنے پر مقدمات درج کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں اس وقت کے نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹیڈ کے چیئرمین، بورڈ آف ڈائریکٹرز، این آئی سی ایل کی سرمایہ کاری کمیٹی، اور دیگر افراد کو مجرمانہ انداز میں اعتماد کو ٹھیس پہنچانے، بے ضابطگی، دھوکہ دہی اور جعل سازی کے مرتکب ہوئے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے اس معاملے کا از خود نوٹس اُس وقت لیا جب شفاف طرز حکمرانی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے 2010ء میں این آئی ایل سی میں اربوں روپے کے گھپلوں کی نشاندہی کی تھی۔