حراستی مرکز میں پاکستانی تارکین وطن کی ہلاکت اور ان کی حالت زار پر چیف جسٹس نے سیکرٹری خارجہ کو ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے سعودی عرب میں ایک حراستی مرکز میں موجود پاکستانیوں کی حالت زار کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ سے جواب طلب کیا ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے یہ نوٹس سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی علی خان کی طرف سے موصول ہونے والی ای میل پر لیا۔
بیان میں کہا گیا کہ علی خان نے ای میل میں لکھا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تقریباً تین ہزار پاکستانیوں کو گزشتہ تین ماہ سے جدہ میں ایک حراستی مرکز میں رکھا ہوا ہے جہاں وہ مبینہ طور پر بہت ہی ابتر حالت میں ہیں جب کی بعض افراد موت کے منہ میں بھی جا چکے ہیں۔
آزاد ذرائع سے تاحال ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی جدہ کے حراستی مرکز میں قید ہیں۔
تاہم پاکستان کے چیف جسٹس نے اس ای میل کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کو اس بارے میں ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے حکم پر گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں انسانی حقوق سے متعلق سیل میں ایک شعبہ قائم کیا گیا تھا جس میں خط، فیکس یا ای میل کے ذریعے سمندر پار پاکستانی اپنی شکایت ارسال کرسکتے ہیں جس پر 24 گھنٹوں میں کارروائی کی جائے گی۔
سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ سال ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اپنی دستاویزات تین نومبر تک درست اور مکمل کرنے کی مہلت دی تھی جس کے بعد ایسا نہ کرسکنے والوں کو ملک بدر اور دیگر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی دفترخارجہ کے عہدیداروں کے مطابق سعودی عرب میں پچاس ہزار سے زائد ایسے پاکستانی موجود ہیں جن کے پاس اپنے قیام کے لیے ضروری قانونی دستاویزات نہیں لیکن اس بارے میں کام کیا جا رہا ہے۔
قبل ازیں سعودی حکومت نے تقریباً آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے ویزہ اور دیگر دستاویزات میں درستگی کے بعد ان کے قیام کو قانونی حیثیت دے دی تھی۔
غیر سرکاری اندازوں کے مطابق لگ بھگ ستر لاکھ پاکستانی تارکین وطن میں سے 25 فیصد سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
پاکستان سمیت مختلف ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ روزگار کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں جن میں سے اکثر اپنے متعلقہ ویزے کی معیاد ختم ہونے پر وہاں غیر قانونی طور پر کام کرتے رہتے ہیں۔
سعودی عرب کی طرف سے تارکین وطن کے لیے متعارف کروائے گئے قوانین کا مقصد کم اجرت پر غیر ملکیوں کی ملک میں آمد کو روکنا اور نجی شعبے میں سعودی شہریوں کے لیے روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرنا تھا۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے یہ نوٹس سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی علی خان کی طرف سے موصول ہونے والی ای میل پر لیا۔
بیان میں کہا گیا کہ علی خان نے ای میل میں لکھا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تقریباً تین ہزار پاکستانیوں کو گزشتہ تین ماہ سے جدہ میں ایک حراستی مرکز میں رکھا ہوا ہے جہاں وہ مبینہ طور پر بہت ہی ابتر حالت میں ہیں جب کی بعض افراد موت کے منہ میں بھی جا چکے ہیں۔
آزاد ذرائع سے تاحال ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی جدہ کے حراستی مرکز میں قید ہیں۔
تاہم پاکستان کے چیف جسٹس نے اس ای میل کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کو اس بارے میں ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے حکم پر گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں انسانی حقوق سے متعلق سیل میں ایک شعبہ قائم کیا گیا تھا جس میں خط، فیکس یا ای میل کے ذریعے سمندر پار پاکستانی اپنی شکایت ارسال کرسکتے ہیں جس پر 24 گھنٹوں میں کارروائی کی جائے گی۔
سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ سال ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اپنی دستاویزات تین نومبر تک درست اور مکمل کرنے کی مہلت دی تھی جس کے بعد ایسا نہ کرسکنے والوں کو ملک بدر اور دیگر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی دفترخارجہ کے عہدیداروں کے مطابق سعودی عرب میں پچاس ہزار سے زائد ایسے پاکستانی موجود ہیں جن کے پاس اپنے قیام کے لیے ضروری قانونی دستاویزات نہیں لیکن اس بارے میں کام کیا جا رہا ہے۔
قبل ازیں سعودی حکومت نے تقریباً آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے ویزہ اور دیگر دستاویزات میں درستگی کے بعد ان کے قیام کو قانونی حیثیت دے دی تھی۔
غیر سرکاری اندازوں کے مطابق لگ بھگ ستر لاکھ پاکستانی تارکین وطن میں سے 25 فیصد سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
پاکستان سمیت مختلف ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ روزگار کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں جن میں سے اکثر اپنے متعلقہ ویزے کی معیاد ختم ہونے پر وہاں غیر قانونی طور پر کام کرتے رہتے ہیں۔
سعودی عرب کی طرف سے تارکین وطن کے لیے متعارف کروائے گئے قوانین کا مقصد کم اجرت پر غیر ملکیوں کی ملک میں آمد کو روکنا اور نجی شعبے میں سعودی شہریوں کے لیے روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرنا تھا۔