پاکستان کی عدالت عظمٰی نے ملک میں قائم خصوصی فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے 16 مجرموں کی اپیلیں مسترد کر دی ہیں۔
ان مجرموں نے اپنی سزاؤں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا اور اُن کی درخواستوں کی سماعت کے لیے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے بینچ نے ان درخواستوں پر اپنا فیصلہ 20 جون کو محفوظ کر لیا تھا، جو پیر 29 اگست کو سنایا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں فوجی عدالتوں کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار یہ ثابت نہیں کر سکے کہ فوجی عدالتوں میں اُنھیں دفاع کا موقع نہیں ملا۔
مجرموں کے وکلاء نے درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ان کے مقدمات کی سماعت کے لیے نہ تو انھیں اپنی مرضی کے وکیل سے استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی اور نا ہی سزاؤں پر فیصلے کا کوئی ریکارڈ فراہم کیا گیا۔
فوجی عدالتوں کے قیام پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور وکلا کی بڑی تنظیمیں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ چکی ہے کہ ان عدالتوں کا قیام ملک میں متوازی نظام قانون کے مترادف ہے جب کہ ان خصوصی عدالتوں میں میں چلائے جانے والے مقدمات کی شفافیت پر بھی کئی سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔
تاہم فوج اور حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران ملزمان کو صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے اور بعد میں مجرم اپنی سزا کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق بھی رکھتا ہے۔
دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے مہلک حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے جنوری 2015ء میں دو سال کے لیے خصوصی فوجی عدالتیں قائم کی تھیں۔
ان عدالتوں کے قیام کا مقصد دہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات کو جلد نمٹانا تھا۔
فوجی عدالتوں سے اب تک لگ بھگ 100 مجرموں کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
پیر کو پاکستان کی عدالت عظمٰی سے جن مجرموں کی اپیل مسترد ہوئیں اُن میں نو کا تعلق کالعدم تحریک طالبان جب کہ دو کا القاعدہ سے بتایا گیا ہے۔
حکام کے مطابق یہ مجرم پشاور میں آرمی پبلک اسکول، راولپنڈی کے علاقے پریڈ لین میں ایک مسجد کے علاوہ کوہاٹ اور نوشہرہ میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے۔
عدالت عظمٰی کے فیصلے میں کہا گیا کہ اُن کے سامنے پیش کیے گئے ریکارڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی عدالتیں پارلیمان سے منظور کیے گئے ’آرمی ایکٹ‘ کے تحت کام کر رہی ہیں۔
جب کہ عدالتی فیصلے کے مطابق شواہد سے بات ثابت ہوئی ہے کہ مجرموں کو فوجی عدالتوں میں اپنے دفاع کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کی تنظیم یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں فوجی عدالتوں کے قیام یا موت کی سزائیں دینے سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہیں آئی ہے۔
’’دیکھیں پہلی بات یہ ہے کہ ہم فوجی عدالتوں کے خلاف ہیں اور میرا خیال ہے کہ جو سویلین عدالتیں ہیں وہ ایک طرح سے متاثر ہوئی ہیں، لیکن اب سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جو خود کش بمبار ہیں تو اُن کو ظاہر ہے کہ اپنی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں ہے تو ایسی صورت حال میں موت کی سزا موثر نہیں رہتی۔‘‘
تاہم حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نہال ہاشمی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کے لیے موت کی سزا کا ہونا ضروری ہے۔
’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آپ دہشت گردوں کو دس یا 15 سال سزا دے دیں، تو یہ کافی نہیں ہے وہ (شدت پسند) سمجھتے ہیں کہ دس سال کے بعد وہ جیل سے باہر آ جائیں گے مگر اس دس سال کی قیمت وہ بہت بھاری وصول کرتے ہیں معاشرے سے اور معصوم لوگوں سے۔۔۔ تو ہمارے جیسا معاشرہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا ہے اس لیے میرے خیال سے انتہائی مناسب سی چیز ہے۔‘‘
سینیٹر نہال ہاشمی کہتے ہیں کہ ملک کی عدالتیں جب بھی کوئی فیصلہ سناتی ہیں تو اُس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
’’جو ہمارے سپریم کورٹ کے جج ہوتے ہیں وہ بڑے ٹھوک بجا کر کسی آرڈر کو پاس کرتے ہیں اُن کے سامنے ساری چیزیں ہوتی ہیں، معاشرتی دباؤ بھی ہوتا ہے، آئینی قانونی تقاضے بھی ہوتے ہیں شواہد بھی ہوتے ہیں۔‘‘
حکومت فوجی عدالتوں کے قیام کا یہ کہہ کر دفاع کرتی آئی ہے کہ ملک کو درپیش غیر معمولی حالات میں یہ فیصلہ ناگزیر تھا اور یہ عدالتیں صرف دو سال کے عرصے کے لیے قائم کی گئی ہیں جن میں صرف دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت ہو گی تاکہ ایسے مقدمات پر قانونی کارروائی جلد از جلد قانونی طریقے سے مکمل ہو سکے۔