پاکستان کی عدالت عظمٰی نے کم عمر زینب کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کے مقدمے کے از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے، لاہور ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ وہ اس بارے میں اپنی کارروائی روک دے۔
تاہم عدالت عظمٰی نے تمام تحقیقاتی ٹیموں کو طلب کیا ہے۔
پنجاب کے ضلع قصور میں زینب کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور اس معاملے کا سپریم کورٹ کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے جواب طلب کر رکھا تھا۔
ایک روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے اس معاملے کی سماعت کی تھی اور ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی تھی جو کہ بدھ کو مکمل ہو گی۔
تاہم منگل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے جب اس معاملے کی سماعت کی تو ملک کی سب سے بڑی عدالت کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے پاس از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی کارروائی روک دے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے زینب قتل میں ملوث ملزم کو تاحال گرفتار نا کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا گیا، جس پر پنجاب پولیس نے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ابوبکر نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا کہ اس بارے میں کوششیں تو جاری ہیں لیکن اُن کا کہنا تھا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے وہ کوئی ’ڈیڈ لائن‘ نہیں دے سکتے۔
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ابوبکر خدا بخش نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ کو بتایا کہ زینب سے جنسی زیادتی اور اس قتل کرنے کے مقدمے کی تفتیش میں لگ بھگ 1100 افراد کو شامل کیا گیا جب کہ 400 سے زائد افراد کی جینیاتی تجزیے یا ’ڈی این اے‘ ٹیسٹ کیے گئے۔
پنجاب حکومت میں شامل عہدیدار اور پولیس کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ اس واقعے میں ملوث شخص کوئی عام ملزم نہیں بلکہ بظاہر ’سیریل کلر‘ ملوث ہے۔
گزشتہ ہفتے صوبائی حکومت کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ حکومت ملزم کے قریب پہنچ چکی ہے، واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے مشتبہ شخص کا خاکہ بھی شائع کیا جا چکا ہے اور اس کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں زینب اپنے گھر کے قریب سے لاپتا ہو گئی تھی بعد ازاں اس کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔
زینب کے پوسٹ مارٹم کے بعد یہ معلوم ہوا تھا کہ اُسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر ہلاک کیا گیا۔
زینب کے قتل کے بعد ملک کی اعلیٰ سویلین اور عسکری قیادت نے بھی تحقیقات کو جلد مکمل کرنے اور ملزم کی گرفتاری کے لیے ہر ممکن کوششوں پر زور دیا تھا جب کہ زینب کے قتل کے بعد ملک میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور یہ بحث بھی جاری ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ایک بھرپور آگاہی مہم چلائی جائے حتیٰ کے نصاب میں بھی تبدیلی کر کے بچوں کو اس ممکنہ خطرے کے بارے میں بتایا جائے۔