صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع سوات کو اگرچہ عسکریت پسندوں سے پاک کرکے یہاں امن بحال کیا جا چکا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس سیاحتی وادی میں جنگ سے متاثرہ عوام کو سنگین سماجی، قانونی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے ان کے بقول کوئی ”جوابی حکمت عملی“ بھی موجود نہیں ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد سے تقریبا ایک سو ساٹھ کلو میٹر شمال مغرب میں واقع سوات اٹھارہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنگجوؤں کی پر تشدد کارروائیوں میں اڑھائی ہزار عام شہری ہلاک اور تین ہزار آٹھ سو زخمی ہوئے۔جبکہ ایک سو تیس پولیس اہلکار ہلاک اور مزید تقریباً چار سو تیس جنگجوؤں کے دباوٴ میں آکر فورس سے علیحدہ ہو گئے۔
سوات سمیت چھ اضلاع پر مشتمل مالاکنڈ ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس قاضی جمیل الرحمان کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد جہاں آبادی کو فطری طور پر نفسیاتی خوف کا سامنا ہے وہیں جائیداد کے کئی تنازعات بھی سامنے آرہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ کئی خواتین ایسی ہیں جو لڑائی کے دوران اپنے خاندان کے کفیل مردوں سے محروم ہونے کے بعد بچوں سمیت اب بے سہارا ہیں اور ان کو خود کفیل بنانا انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہ خواتین نہ تو پڑھی لکھی ہیں اور نہ ہی انھیں کسی نوکری کا تجربہ ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے مطابق سوات کی خواتین کو اگرچہ ان شدت پسند عناصر سے نجات مل چکی ہے جو ان کی تعلیم اور ترقی کے خلاف تھے خصوصاً ملازمت پیشہ خواتین اور شعبہ موسیقی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے قتل کے مرتکب ہوئے لیکن ان کے مطابق یہاں عورتیں اب بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے نافذ کردہ خواتین تحفظ ایکٹ 2006ء اور جائے کار پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون 2010ء کا نفاد یہاں نہیں ہو رہا۔
ضلع سوات صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی پاٹا کا حصّہ ہے جن کا انتظام خصوصی قوانین کے تحت چلایا جاتا ہے اور وفاق کی سطح پر نافذ کردہ قوانین کا اطلاق یہاں فوری طور پر نہیں ہوتا۔
قاضی جمیل الرحمان نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ان قوانین کا دائرہ سوات تک ضرور بڑھائے تاکہ یہاں کی خواتین کو بھی تحفظ حاصل ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے سوات کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیرنو کی جا رہی ہے لیکن اس کی مکمل بحالی میں مزید ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔
عسکریت پسندوں نے پولیس کے کل گیارہ میں سے نوتھانوں کو تباہ کر دیا تھا جبکہ پرائمری سے سیکنڈری کی سطح تک لڑکے اور لڑکیوں کے پندرہ سو تعلیمی اداروں میں سے چار سو کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا۔
”تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں میں سے 75فیصد میں تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے جبکہ پولیس تھانوں کی تعداد بڑھا کر سولہ کر دی گئی ہے تاکہ یہاں پولیس کا نظام مزید مضبوط ہو اور عسکریت پسندوں کی کسی بھی ممکنہ کاروائی کو ناکام بنایا جا سکے۔ “
ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس نے بتایا کہ سوات فوجی آپریشن کے دوران جن ملزمان کو گرفتار کیا گیا ان میں سے کئی پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے لیکن ان کاکہنا تھا کہ عدل کا نظام جو کئی ماہ تک مفلوج رہا اس کی مکمل بحالی ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔
سوات میں عسکریت پسندوں کی گرفت 2007ء میں اس وقت مضبوط ہوتی نظر آئی جب یہاں مقامی طالبان کے سربراہ فضل اللہ نے اپنے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے خواتین کی تعلیم، نوکریوں ، پولیو کے حفاظتی قطروں کی مہم اور غیر ملکی تنظیموں کی فلاحی سرگرمیوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے ان کو روکنے کے لیے پر تشدد کارروائیاں شروع کیں۔ 2008ء تک سوات کا بیشتر علاقہ طالبان نے اپنے کنٹرول میں کر لیا۔
2009ء کے شروع میں حکومت نے طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا جس کے بعد یہاں ایک آرڈیننس کے تحت شریعہ قوانین بھی نافذ کر دیے گئے۔ لیکن جنگجوؤں کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد فوج نے یہاں آپریشن شروع کیا اور اسی سال علاقے کو جنگجوؤں سے پاک کر دیا۔ اگر چہ اس کے نتیجے میں سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں سے لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑی۔
قاضی جمیل نے بتایا کہ سوات میں شریعہ قوانین اب بھی نافذ ہیں لیکن یہ تعزیرات پاکستان کے تحت ہیں یہ نظام پاکستان کے عدالتی نظام سے کسی بھی طرح مختلف نہیں، سوائے اس کے کہ یہاں کا سیشن جج ضلع قاضی کہلاتا ہے۔