سوات کے معروف ’بیگمی چاول‘ کی جگہ ’فخر مالاکنڈ‘ لے رہا ہے

سوات میں آپ کسی کے بھی مہمان ہوں تو ظہرانے یا عشائیے کے وقت آپ کی تواضع مقامی مشہور موٹے چاول سے کی جاتی ہے جسے مقامی لوگ بیگمی چاول کہتے ہیں۔ اس چاول کی ڈش تیار کر کے ایک بڑے تھال میں مہمانوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس کے عین وسط میں دیسی گھی سے بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا ہوتا ہے۔ اگر ذائقے کو مزید نکھارنا ہو تو ساتھ دہی اور بالائی بھی پیش کی جاتی ہے۔

مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ بیگمی چاول کا تعلق سوات کے شاہی خاندان سے ہے اور شاہی خاندان کی ایک بیگم صاحبہ اسے ایران یا افغانستان سے اپنے ساتھ لائی تھيں جس کے بعد اس کی مقامی طور پر کاشت شروع ہو گئی اور یہاں کی آب و ہوا اسے راس آ گئی۔ اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ بیگمی چاول کی ڈش کو مہمانوں کے سامنے سوغات کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔

تاہم، سوات کے زرعی تحقیقاتی ادارے کے پرنسپل ریسرچ آفیسر ڈاکٹر نعیم احمد روغانی اس مقامی تصور سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 60 کی دہائی میں پاکستان نے بیرونی دنیا سے سات اقسام کے چاول کے بیج درآمد کیے۔ ان میں جے پی پانچ نسل کے چاول کا بیج ابتدائی طور پر قبائلی علاقہ اورکزئی میں کاشت کیا گیا جس کے بعد اسے 70 کی دہائی میں سوات میں متعارف کیا گیا۔ اپنی مخصوص ساخت اور ٹھنڈی آب و ہوا میں کاشت کيے جانے کے باعث سوات کا علاقہ اس کے لیے سب سے موزوں ٹھہرا۔

ان کا کہنا ہے کہ مقامی کاشت کاروں میں یہ بیج تقسیم کیا گیا، جن میں ایک فوجی افسر کی بیوی بیگم بلقیس آفندی بھی شامل تھیں۔ انہوں نے اس کی کاشت میں بہت دلچسپی لی۔

مقامی کاشت کاروں کی پیداوار اس حد تک حوصلہ افزا نہیں تھی۔ تاہم، بیگم بلقیس آفندی کی پیداوار علاقے میں سب سے زیادہ ہوئی اور کئی کسانوں نے ان کی مشاورت سے کاشت شروع کی، جس کے بعد اس کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ بلقیس آفندی کو مقامی لوگ بیگم صاحبہ کہتے تھے۔ اسی وجہ سے اس چاول کا نام بیگمی چاول پڑ گیا۔

پاکستان میں عمومی طور پر پتلا سیلہ چاول پسند کیا جاتا ہے جو پنجاب اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ تاہم، سوات کا بیگمی چاول صرف سوات تک نہیں بلکہ مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع دیر، بونیر اور شانگلہ تک پھیل گیا۔

ڈاکٹر ںعيم روغانی بتاتے ہيں کہ یہ بنیادی طور پر جے پی پانچ نسل کا چاول ہے، جو کہ ہم نے 60 کے عشرے میں فلپائن سے درآمد کیا تھا۔ اس چاول کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے ٹھنڈی آب و ہوا اور ٹھنڈے پانی والے علاقوں میں بھی کاشت کیا جا سکتا ہے۔

بیگمی چاول کو سوات بھر میں بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چاول اب اپنی خصوصی حیثیت کھو رہا ہے۔ مقامی کاشت کار اس کی بنیادی وجہ اس کی گرتی ہوئی پیداوار بتاتے ہیں۔

ارسلان خان کا تعلق سوات کے علاقے مینگورہ سے ہے۔ وہ پچھلے 30 سال سے کاشت کاری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ارسلان کے مطابق، اب وہ بیگمی چاول کی بجائے مقامی چاول کی ایک اور قسم فخر مالاکنڈ کو ترجیح دیتے ہیں۔،کیونکہ اگر بیگمی چاول کی ایک کنال کی پیداوار 25 ہو تو فخرِ مالاکنڈ کی پیداوار اس کے مقابلے میں دگنی ہوتی ہے۔

بخت بوستان مینگورہ شہر میں پچھلے 40 برسوں سے چاول کا کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بیگمی اور فخرِ مالاکنڈ دونوں میں ذائقے کا کوئی خاص فرق نہیں ہے اور بنیادی فرق پیداوار کا ہے۔ اس لیے اب کسان اسے ترجیح دیتے ہیں اور بازار میں بھی بیگمی چاول مشکل سے ہی نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر روغانی کا کہنا ہے کہ درحقیقت فخرِ مالاکنڈ جے پی 5، یا بیگمی چاول ہی کی ایک قسم ہے، جسے ہم نے خود تحقیق کے بعد متعارف کرایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اصل میں بیگمی چاول کا دانہ اور تنا بہت میٹھا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس پر مختلف قسم کے کیڑے اور بیماریاں حملہ کرتی ہیں۔ جس سے تنا کمزور اور خوشے میں دانہ کم رہ جاتا تھا اور اس سے چاول کی پیداوار گھٹ جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کاشت کار بیگمی چاول کی جگہ دوسری اقسام کو ترجیج دینے لگے ہیں اور اب ان کا پہلا انتخاب فخر مالاکنڈ بن گیا ہے۔

ڈاکٹر روغانی مزید بتاتے ہیں کہ چند مقامات پر تو اس کی پیداوار ایک کنال پر 90 من سے بھی زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ زرعی تحقیقاتی ادارہ مینگورہ نے اپنی ریسرچ جاری رکھی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر روغانی بتاتے ہیں کہ بہت جلد وہ ایک اور قسم کا بیج متعارف کرایا جائے گا جس کی نہ صرف پیداوار زیادہ ہو گی بلکہ اس کی خوشبو بھی بہتر ہو گی۔