عرفان صدیقی نے بتایا کہ طالبان کی کمیٹی کے دو اراکین پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ طالبان کی شوریٰ سے ملاقات کے بعد حوصلہ افزا اشارے لے کر آئے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں کے اراکین کے درمیان منگل کو ایک غیر رسمی ملاقات ہوئی جس میں مذاکراتی عمل میں اب تک ہونے والی پیش رفت کو تسلی بخش قرار دیا گیا۔
ملاقات کے بعد طالبان کی نامزد کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ مشاورتی نشست تھی جس میں باقاعدہ مذاکرات کے آئندہ دور سے متعلق تفصیلات پر غور کیا گیا۔
عرفان صدیقی نے بتایا کہ طالبان کی کمیٹی کے دو اراکین پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ طالبان کی شوریٰ سے ملاقات کے بعد حوصلہ افزا اشارے لے کر آئے ہیں۔
’’ہم توقع کر رہے ہیں کہ اگر اسی احتیاط کے ساتھ اور عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو شاید آنے والے دنوں میں ہم زیادہ ٹھوس اور ایسے مثبت اقدامات کر سکیں جن سے قوم کو اچھے اشارے ملیں۔‘‘
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ماحول کو سازگار بنانے سے متعلق طالبان کی تجاویز سے سرکاری کمیٹی کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
’’فضا اور پرامن ماحول بنانے کے لیے دونوں کے ہاں فائر بندی کی تجویز ہے تو آگے چل کر اس پر بھی بات ہو گی۔‘‘
بعد ازاں حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کی۔
اُدھر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ طالبان سے مذاکرات آئین کے دائرے ہی میں ہوں گے۔ ’’ماورائے آئین کوئی بات نہیں ہو گی۔‘‘
وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمان نے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں کہا کہ مذاکرات کو حکومت کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیئے۔ انھوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا اختیار دیا ہے تاہم اُن کے بقول یہ بات حیران کن ہے کہ بعض سیاسی رہنماء اپنی جماعتوں کے موقف کے برعکس مذاکراتی عمل کی مخالفت کر رہے ہیں۔
طالبان کی کمیٹی میں شامل دو شخصیات نے شمالی وزیرستان میں طالبان کی شوریٰ سے ملاقات کر کے اُنھیں حکومت کے پیش کردہ نکات سے آگاہ کیا اور اُن کا جواب لے کر پیر ہی کو واپس نوشہرہ پہنچے تھے۔
شمالی وزیرستان جانے اور وہاں سے واپسی کے لیے طالبان کمیٹی کے اراکین کو حکومت نے ہیلی کاپٹر فراہم کیا تھا۔
دونوں کمیٹیوں کا پہلا اجلاس گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا تھا اور توقع ہے کہ آئندہ باضابطہ اجلاس بھی جلد ہو گا۔
ملاقات کے بعد طالبان کی نامزد کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ مشاورتی نشست تھی جس میں باقاعدہ مذاکرات کے آئندہ دور سے متعلق تفصیلات پر غور کیا گیا۔
عرفان صدیقی نے بتایا کہ طالبان کی کمیٹی کے دو اراکین پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ طالبان کی شوریٰ سے ملاقات کے بعد حوصلہ افزا اشارے لے کر آئے ہیں۔
’’ہم توقع کر رہے ہیں کہ اگر اسی احتیاط کے ساتھ اور عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو شاید آنے والے دنوں میں ہم زیادہ ٹھوس اور ایسے مثبت اقدامات کر سکیں جن سے قوم کو اچھے اشارے ملیں۔‘‘
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ماحول کو سازگار بنانے سے متعلق طالبان کی تجاویز سے سرکاری کمیٹی کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
’’فضا اور پرامن ماحول بنانے کے لیے دونوں کے ہاں فائر بندی کی تجویز ہے تو آگے چل کر اس پر بھی بات ہو گی۔‘‘
بعد ازاں حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کی۔
اُدھر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ طالبان سے مذاکرات آئین کے دائرے ہی میں ہوں گے۔ ’’ماورائے آئین کوئی بات نہیں ہو گی۔‘‘
وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمان نے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں کہا کہ مذاکرات کو حکومت کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیئے۔ انھوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا اختیار دیا ہے تاہم اُن کے بقول یہ بات حیران کن ہے کہ بعض سیاسی رہنماء اپنی جماعتوں کے موقف کے برعکس مذاکراتی عمل کی مخالفت کر رہے ہیں۔
طالبان کی کمیٹی میں شامل دو شخصیات نے شمالی وزیرستان میں طالبان کی شوریٰ سے ملاقات کر کے اُنھیں حکومت کے پیش کردہ نکات سے آگاہ کیا اور اُن کا جواب لے کر پیر ہی کو واپس نوشہرہ پہنچے تھے۔
شمالی وزیرستان جانے اور وہاں سے واپسی کے لیے طالبان کمیٹی کے اراکین کو حکومت نے ہیلی کاپٹر فراہم کیا تھا۔
دونوں کمیٹیوں کا پہلا اجلاس گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا تھا اور توقع ہے کہ آئندہ باضابطہ اجلاس بھی جلد ہو گا۔