اتوار کو طلوع آفتاب سے قبل ان اہلکاروں کی لاشیں حسن خیل کے علاقے میں سے ملی ہیں جن کی شناخت کر لی گئی ہے۔
طالبان شدت پسندوں نے پاکستان کے شمال مغرب سے اغواء کیے جانے والے نیم فوجی اہلکاروں میں سے کم ازکم 21 کو ہلاک کردیا۔
مقامی حکام کے مطابق جمعرات کو پشاور کے قریب نیم قبائلی علاقے حسن خیل کے ایک چیک پوائنٹ پر شدت پسندوں نے حملہ کر کے لیویز کے دو اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا جب کہ 22 اہلکاروں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
اتوار کو طلوع آفتاب سے قبل ان اہلکاروں کی لاشیں حسن خیل کے علاقے میں سے ملی ہیں جن کی شناخت کر لی گئی ہے۔
ایک اہلکار شدت پسندوں کے نرغے سے فرار ہونے میں کامیاب رہا جب کہ زندہ بچ جانے والا ایک اہلکار شدید زخمی ہے جسے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
انتظامیہ نے حسن خیل سے تعلق رکھنے والے جرگے کے ارکان سے کہا تھا کہ وہ اغواء ہونے والے لیویز اہلکاروں کو جلد از جلد بازیاب کرانے میں قبائلی علاقوں میں رائج قوانین کے تحت اپنا فعال کردار ادا کریں۔
اس سے قبل بھی طالبان شدت پسند سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے آئے ہیں۔ رواں ماہ پشاور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں شدت پسندوں کی طرف سے کی جانی والی یہ تیسری بڑی پرتشدد کارروائی ہے۔
سال کے اس آخری مہینے میں عسکریت پسندوں نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں فضائی اڈے پر حملہ کیا تھا جس میں کم ازکم 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ سکیورٹی فورسز نے آپریشن کرکے 5 شدت پسندوں کو ہلاک کردیا تھا۔
رواں ماہ پشاور ہی کے ایک مصروف علاقے میں خودکش بم حملے میں سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور سمیت نو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دریں اثناء قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اتوار کی صبح دیسی ساختہ بم کے دھماکے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے۔
یہ واقعہ میران شاہ کے دیگن نامی علاقے میں پیش آیا جہاں سکیورٹی فورسز کے اہلکار معمول کے گشت پر تھے کہ یہ لوگ دیسی ساختہ بم دھماکے کی زد میں آگئے۔
مقامی حکام کے مطابق جمعرات کو پشاور کے قریب نیم قبائلی علاقے حسن خیل کے ایک چیک پوائنٹ پر شدت پسندوں نے حملہ کر کے لیویز کے دو اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا جب کہ 22 اہلکاروں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
اتوار کو طلوع آفتاب سے قبل ان اہلکاروں کی لاشیں حسن خیل کے علاقے میں سے ملی ہیں جن کی شناخت کر لی گئی ہے۔
ایک اہلکار شدت پسندوں کے نرغے سے فرار ہونے میں کامیاب رہا جب کہ زندہ بچ جانے والا ایک اہلکار شدید زخمی ہے جسے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
انتظامیہ نے حسن خیل سے تعلق رکھنے والے جرگے کے ارکان سے کہا تھا کہ وہ اغواء ہونے والے لیویز اہلکاروں کو جلد از جلد بازیاب کرانے میں قبائلی علاقوں میں رائج قوانین کے تحت اپنا فعال کردار ادا کریں۔
اس سے قبل بھی طالبان شدت پسند سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے آئے ہیں۔ رواں ماہ پشاور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں شدت پسندوں کی طرف سے کی جانی والی یہ تیسری بڑی پرتشدد کارروائی ہے۔
سال کے اس آخری مہینے میں عسکریت پسندوں نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں فضائی اڈے پر حملہ کیا تھا جس میں کم ازکم 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ سکیورٹی فورسز نے آپریشن کرکے 5 شدت پسندوں کو ہلاک کردیا تھا۔
رواں ماہ پشاور ہی کے ایک مصروف علاقے میں خودکش بم حملے میں سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور سمیت نو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دریں اثناء قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اتوار کی صبح دیسی ساختہ بم کے دھماکے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے۔
یہ واقعہ میران شاہ کے دیگن نامی علاقے میں پیش آیا جہاں سکیورٹی فورسز کے اہلکار معمول کے گشت پر تھے کہ یہ لوگ دیسی ساختہ بم دھماکے کی زد میں آگئے۔