طالبان سے مذاکرات کے مستقبل پر خدشات

(فائل)

اِس عمل میں قبائلی جرگے کے ذریعے مقامی عمائدین اور سیاسی و مذہبی شخصیات کو شریک کیے بغیر موٴثر و دیرپا امن ممکن نہیں: جے یو آئی (ف) ترجمان
نواز شریف انتظامیہ اور طالبان شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات گزشتہ کئی ہفتوں سے بدستور تعطل کا شکار ہیں اور بارہا اعلانات کے باوجود، رابطہ کار کمیٹی عسکریت پسندوں کی شوریٰ اور حکومت کی دوسری نشست کے انعقاد میں تاحال نام کام رہی ہے۔

ادھر مذاکرات اور شرائط سے متعلق الزامات اور شکایات کا اظہار نا صرف کھلے عام کیا گیا ہے، بلکہ عسکریت پسندوں کی طرف سے مہلک حملے اور پھر حکومت کی جوابی کارروائیاں بھی جاری ہیں، جو کہ مبصرین کے مطابق، دونوں جانب پائی جانے والی عدم اعتماد کی غمازی کرتی ہے۔

اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نواز انتظامیہ کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی بات چیت کے عمل کی کامیابی کے بارے میں پر امید نہیں نظر آتی۔

جمعیت کے مرکزی ترجمان جان اچکزئی نے جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مایوسی کی وجہ شدت پسندوں کے درمیان اختلافات اور مختلف دھڑوں میں لڑائیوں کے ساتھ ساتھ حکومت اور سیکورٹی اداروں کا عسکریت پسندوں کی طرف سے شرائط پر متفق نا ہونا بھی ہے‘۔

’’ایک رائے حکومتی کمیٹی کی رہی ہے کہ طالبان کو اعتماد سازی کی بنیاد پر رہا کیا جائے اور دوسری طرف یہ رائے کہ جب تک کوئی معاملہ باضابطہ طور پر طے نہیں پاتا ایسا نا کیا جائے، کیونکہ مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں پھر مشتبہ لوگوں کو پکڑنا تو سیکورٹی اداروں ہی کی ذمہ داری اور انہی کے لیے چیلنج ہوگا۔‘‘

گزشتہ ماہ حکومت نے 19 غیر عسکری طالبان قیدی رہا کیے اور مزید درجن قیدیوں کی رہائی کا اعلان بھی کیا تاہم شدت پسندوں کی طرف سے فائر بندی میں توسیع نا کرنے پر اس پر عمل درآمد نا ہوسکا۔

نواز انتظامیہ میں شامل سینئیر عہدیدار بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ سول حکومت اور فوج کا مذاکرات اور داخلی سلامتی کے امور پر کوئی اختلاف نہیں اور تمام فیصلے باہمی مشاورت سے ہی کیے جاتے ہیں۔

ادھر جمعرات کو ہی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور دونوں شخصیات میں سرکاری عہدیداروں کے مطابق قومی سلامتی کے امور پر بات چیت ہوئی۔

جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ قبائلی جرگہ کے نظام کے ذریعے مقامی عمائدین اور سیاسی و مذہبی شخصیات کی اس عمل میں شرکت کے بغیر موثر و دیرپا امن ممکن نہیں۔

’’وہ دونوں فریقین سے بات چیت کرتے ہیں اور ان کے مطالبات سنتے ہوئے ایک شفاف انداز میں دونوں کو بتایا جاتا ہے کہ کہاں تک جایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ایک ذامن کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور بعد میں شکایات کا بھی ایک طریقہ کار کے طے کر کے اُن کا ازالہ کرتے ہیں۔‘‘

دریں اثناء اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ جمعرات کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے سیکورٹی فورسز پر حملے کا بھی جواب دیا جائے گا۔

’’اس کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور یہ بم پرانا نہیں بلکہ حال ہی میں نصب کیا گیا تھا۔ تحقیقات کے بعد اس پر ردعمل بھی ہو گا۔‘‘

شدت پسندوں کے اس حملے میں 9 سیکورٹی اہلکار مارے گئے۔

نواز انتظامیہ کا موقف رہا ہے کہ بات چیت سے قیام امن اس کی ترجیح ہے مگر اس میں ناکامی حکومت کے لیے طاقت کے استعمال کا راستہ بھی کھول سکتی ہے۔