تحریک طالبان پاکستان نے رواں ہفتے حکومت سے فائربندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا کہ حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
اسلام آباد —
کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے رواں ہفتے فائر بندی میں توسیع کا اعلان نا کرنے کے بعد ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی کوششیں بظاہر متاثر ہوئی ہیں۔
تاہم طالبان اور حکومت دونوں کی جانب سے بات چیت کا عمل جاری رکھنے کے اشارے دیے گئے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ فائر بندی ختم ہونے کی صورت میں بامقصد مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے، وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر سنجیدگی نا ہوتی تو سرکاری مذاکراتی ٹیم وزیرستان کیوں جاتی۔
چودھری نثار نے کہا کہ طالبان کو اگر بعض معاملات پر اعتراضات ہیں تو حکومت کو بھی بہت سے تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود مذاکرات کا عمل اُن کے بقول خلوص نیت سے آگے بڑھایا گیا۔
تحریک طالبان پاکستان نے رواں ہفتے حکومت سے فائربندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
حکومت نے طالبان سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کے لیے 19 غیر عسکری قیدی بھی رہا کیے جب کہ درجن کے قریب مزید قیدی رہا کرنے کا اعلان بھی کیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جن افراد کو رہا کیا گیا اُس کے بارے میں سیاسی جماعتوں کو آگاہ کیا جائے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنما سینیٹر ظفر الحق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت ایسے بیانات سے اجتناب کرنا چاہیئے جن سے مذاکرات کا عمل متاثر ہو۔
طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں اور انھیں امید ہے کہ یہ سلسلہ بحال ہو جائے گا۔
تاہم طالبان اور حکومت دونوں کی جانب سے بات چیت کا عمل جاری رکھنے کے اشارے دیے گئے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ فائر بندی ختم ہونے کی صورت میں بامقصد مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے، وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر سنجیدگی نا ہوتی تو سرکاری مذاکراتی ٹیم وزیرستان کیوں جاتی۔
چودھری نثار نے کہا کہ طالبان کو اگر بعض معاملات پر اعتراضات ہیں تو حکومت کو بھی بہت سے تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود مذاکرات کا عمل اُن کے بقول خلوص نیت سے آگے بڑھایا گیا۔
تحریک طالبان پاکستان نے رواں ہفتے حکومت سے فائربندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
حکومت نے طالبان سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کے لیے 19 غیر عسکری قیدی بھی رہا کیے جب کہ درجن کے قریب مزید قیدی رہا کرنے کا اعلان بھی کیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جن افراد کو رہا کیا گیا اُس کے بارے میں سیاسی جماعتوں کو آگاہ کیا جائے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنما سینیٹر ظفر الحق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت ایسے بیانات سے اجتناب کرنا چاہیئے جن سے مذاکرات کا عمل متاثر ہو۔
طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں اور انھیں امید ہے کہ یہ سلسلہ بحال ہو جائے گا۔