رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے مثبت جواب پر شدت پسند فائر بندی کی مدت میں توسیع کریں گے۔
اسلام آباد —
سرکاری مذاکرات کار رستم شاہ مہمند نے انکشاف کیا ہے کہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کی طرف سے فائر بندی کے لیے حکومت کو پیش کردہ متعدد تجاویز میں عسکریت پسندوں کو ایک مخصوص علاقے پر کنٹرول دینا بھی شامل تھا۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی شرائط فائر بندی کے لیے کوئی خاطر خواہ ’’رکاوٹ‘‘ نہیں رہیں۔
’’یہ تھا کہ ایسا ہمیں ٹکڑا دیا جائے جہاں پر سیکورٹی فورسز نا ہوں اور ہم (شدت پسند) آسانی سے آجا سکیں لیکن اس پر حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے فائر بندی کا اعلان کیا جس کا مطلب وہ بھی کوئی ایسی شرط نہیں تھی۔‘‘
طالبان کی طرف سے 23 سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کے دعوے کے بعد گزشتہ ماہ حکومت نے شدت پسندوں سے مذاکراتی عمل معطل کرتے ہوئے طالبان سے غیر مشروط طور پر تشدد کی کارروائیاں ختم کرنے کی شرط عائد کی تھی۔
تاہم طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ہفتے کو ایک بیان میں ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت کی طرف سے عسکریت پسندوں کی چند تجاویز پر مثبت ردعمل اور عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد کیا گیا۔
سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل کو بحال کرنے اور مستحکم بنانے کے لیے حکومت کو شدت پسندوں کے خلاف اپنی محدود فضائی فوجی کارروائیوں کو عارضی طور پر روکنا چاہیئے اور دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی بھی اعتماد سازی کا ایک اہم قدم ہوگا۔
’’وہ قیدی تو کسی قانون کے تحت گرفتار نہیں ہوئے۔ یہ لوگ بلوچستان، خیبرپختون خواہ اور قبائلی علاقوں سے اٹھائے گئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ ہیں اور سپریم کورٹ میں گزشتہ چار، پانچ سالوں سے لاپتا افراد کیس چل رہا ہے۔ تو کہا جاتا ہے کہ انہیں رہا کردیا جائے اور جس کے خلاف الزام ہے انہیں عدالت میں پیش کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے مثبت جواب پر شدت پسند فائر بندی کی مدت میں توسیع کریں گے۔
طالبان کے نامزد کردہ ایک مذاکرات کار پروفیسر محمد ابراہیم نے بھی اس کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم حکومت کے نکات وہاں لے گئے اور طالبان کا جواب حکومت کو پہنچایا۔ ہاں (طالبان کی تجاویز پر)مثبت جواب بھی آیا اور کچھ لوگوں نے کوششیں بھی کیں جس سے فائر بندی کا اعلان سامنے آیا۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز ظفر علی شاہ نے فائر بندی کے لیے طالبان کی حکومت کو تجاویز سے متعلق دعوے کو مسترد نہیں کیا تاہم ان کا کہنا تھا۔
’’بلیک اینڈ وائٹ میں تو ایسا کچھ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسا اسٹریکٹلی سینس میں کچھ نہیں ہے۔ جب مذاکرات شروع ہوں گے تو پھر شرائط پر بات ہوگی اور اگر یہ ناکامی کی طرف بڑھے تو پھر دونوں دھڑے اپنا اپنا فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔‘‘
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم کے مطابق طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد آئندہ چند روز میں سرکاری مذاکرات کاروں سے ملاقات متوقع ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی شرائط فائر بندی کے لیے کوئی خاطر خواہ ’’رکاوٹ‘‘ نہیں رہیں۔
’’یہ تھا کہ ایسا ہمیں ٹکڑا دیا جائے جہاں پر سیکورٹی فورسز نا ہوں اور ہم (شدت پسند) آسانی سے آجا سکیں لیکن اس پر حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے فائر بندی کا اعلان کیا جس کا مطلب وہ بھی کوئی ایسی شرط نہیں تھی۔‘‘
طالبان کی طرف سے 23 سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کے دعوے کے بعد گزشتہ ماہ حکومت نے شدت پسندوں سے مذاکراتی عمل معطل کرتے ہوئے طالبان سے غیر مشروط طور پر تشدد کی کارروائیاں ختم کرنے کی شرط عائد کی تھی۔
تاہم طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ہفتے کو ایک بیان میں ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت کی طرف سے عسکریت پسندوں کی چند تجاویز پر مثبت ردعمل اور عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد کیا گیا۔
سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل کو بحال کرنے اور مستحکم بنانے کے لیے حکومت کو شدت پسندوں کے خلاف اپنی محدود فضائی فوجی کارروائیوں کو عارضی طور پر روکنا چاہیئے اور دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی بھی اعتماد سازی کا ایک اہم قدم ہوگا۔
’’وہ قیدی تو کسی قانون کے تحت گرفتار نہیں ہوئے۔ یہ لوگ بلوچستان، خیبرپختون خواہ اور قبائلی علاقوں سے اٹھائے گئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ ہیں اور سپریم کورٹ میں گزشتہ چار، پانچ سالوں سے لاپتا افراد کیس چل رہا ہے۔ تو کہا جاتا ہے کہ انہیں رہا کردیا جائے اور جس کے خلاف الزام ہے انہیں عدالت میں پیش کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے مثبت جواب پر شدت پسند فائر بندی کی مدت میں توسیع کریں گے۔
طالبان کے نامزد کردہ ایک مذاکرات کار پروفیسر محمد ابراہیم نے بھی اس کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم حکومت کے نکات وہاں لے گئے اور طالبان کا جواب حکومت کو پہنچایا۔ ہاں (طالبان کی تجاویز پر)مثبت جواب بھی آیا اور کچھ لوگوں نے کوششیں بھی کیں جس سے فائر بندی کا اعلان سامنے آیا۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز ظفر علی شاہ نے فائر بندی کے لیے طالبان کی حکومت کو تجاویز سے متعلق دعوے کو مسترد نہیں کیا تاہم ان کا کہنا تھا۔
’’بلیک اینڈ وائٹ میں تو ایسا کچھ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسا اسٹریکٹلی سینس میں کچھ نہیں ہے۔ جب مذاکرات شروع ہوں گے تو پھر شرائط پر بات ہوگی اور اگر یہ ناکامی کی طرف بڑھے تو پھر دونوں دھڑے اپنا اپنا فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔‘‘
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم کے مطابق طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد آئندہ چند روز میں سرکاری مذاکرات کاروں سے ملاقات متوقع ہے۔