وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم ’’مکمل اختیارات‘‘ رکھتی ہے تاہم شدت پسندوں کی طرف سے ان کی کمیٹی کے بارے میں ابھی وضاحت باقی ہے۔
اسلام آباد —
حکومت سے مذاکرات کے لئے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مقامی ذرائع ابلاغ میں پانچ سیاستدانوں اور مذہبی شخصیات کے نام بحیثیت ثالث سامنے آئے ہیں جس کا حکومتی مذاکرات کاروں نے خیر مقدم کیا ہے۔
تاہم حکومت کی اتحادی سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) اور حزب اختلاف کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اس سے بظاہر خوش نہیںَ اور اس پر غور کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کے ہنگامی اجلاس پیر کو طلب کر لیے گئے ہیں۔
سماجی رابطوں کی معروف ویب سائٹ ٹوئیٹر پر عمران خان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کو مذاکرات کے لیے اپنی تنظیم میں سے افراد کو چننا چاہئے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس پر اجلاس میں غور کیا جائے گا کہ تحریک انصاف اس عمل میں کس حد تک مدد کر سکتی ہے۔
جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’تحریک طالبان ایک تنظیم ہے جو کالعدم قرار دی گئی ہے۔ کیا وہ اپنے تنظیمی ڈھانچے کے اندر نام تجویز کریں یا اس کے باہر بھی جو چاہیں نام لے لیں؟ ہمارے خیال میں اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے ساتھ ساتھ ’’زبان بندی‘‘ بھی ہونی چاہیے۔
’’یہ جو لفظ ’آخری موقع‘ ہے کہ ہم امن کو آخری موقع دے رہے ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ اس سے شک و شبہات کی بدبو آتی ہے کہ کہیں ہم اتمام حجت تو نہیں کررہے جیسا کہ سوات میں کیا تھا۔‘‘
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی امور اور حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ بات چیت شروع کرنے کے لیے وہ طالبان کی نامزد کردہ ٹیم کی طرف سے مثبت اشارے کا انتظار کررہے ہیں۔
’’ہم نے تو طالبان کی کمیٹی کو اس کی فیس ویلیو پر تسلیم کرلیا۔ اب اس پر جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان کے جواب یا تو طالبان سے پوچھے جائیں یا اراکین سے۔ ہم نے تو گزشتہ دس، بارہ سال میں تو کبھی ایسی کمیٹی نہیں دیکھی۔ میرے خیال میں (شدت پسندوں سے) براہ راست بات والی بات تو ابھی نہیں ہے۔‘‘
تحریک طالبان کی طرف عمران خان کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جماعتِ اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ اور اسلام آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے نام سامنے آئے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی طرف سے اپنی تنظیم میں سے افراد پر مشتمل ٹیم کا اعلان نا کرنا اس مذاکراتی عمل سے متعلق ان کے غیر سنجیدہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔
سلامتی کے امور کے ماہر اور سابق برگیڈیر اسد منیر کا کہنا تھا۔ ’’2002ء سے ایسا ہورہا ہے کہ جب انہیں (طالبان کو) پتہ چلتا ہے کہ ملٹری آپریشن ہونا ہے تو وہ بات چیت کرنے کی بات کردیتے ہیں۔ شاید یہ ایک دو گروہ بات چیت کے لیے تیار ہو جائیں مگر اس میں القاعدہ اور دیگر غیر ملکی تنظیمیں ہیں ان کا کیا کریں گے؟ ان کی جگہ کون بات چیت کرے گا؟‘‘
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم ’’مکمل اختیارات‘‘ رکھتی ہے تاہم شدت پسندوں کی طرف سے ان کی کمیٹی کے بارے میں ابھی وضاحت باقی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف سے پیر کو ملاقات میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
تاہم حکومت کی اتحادی سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) اور حزب اختلاف کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اس سے بظاہر خوش نہیںَ اور اس پر غور کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کے ہنگامی اجلاس پیر کو طلب کر لیے گئے ہیں۔
جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’تحریک طالبان ایک تنظیم ہے جو کالعدم قرار دی گئی ہے۔ کیا وہ اپنے تنظیمی ڈھانچے کے اندر نام تجویز کریں یا اس کے باہر بھی جو چاہیں نام لے لیں؟ ہمارے خیال میں اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے ساتھ ساتھ ’’زبان بندی‘‘ بھی ہونی چاہیے۔
’’یہ جو لفظ ’آخری موقع‘ ہے کہ ہم امن کو آخری موقع دے رہے ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ اس سے شک و شبہات کی بدبو آتی ہے کہ کہیں ہم اتمام حجت تو نہیں کررہے جیسا کہ سوات میں کیا تھا۔‘‘
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی امور اور حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ بات چیت شروع کرنے کے لیے وہ طالبان کی نامزد کردہ ٹیم کی طرف سے مثبت اشارے کا انتظار کررہے ہیں۔
’’ہم نے تو طالبان کی کمیٹی کو اس کی فیس ویلیو پر تسلیم کرلیا۔ اب اس پر جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان کے جواب یا تو طالبان سے پوچھے جائیں یا اراکین سے۔ ہم نے تو گزشتہ دس، بارہ سال میں تو کبھی ایسی کمیٹی نہیں دیکھی۔ میرے خیال میں (شدت پسندوں سے) براہ راست بات والی بات تو ابھی نہیں ہے۔‘‘
تحریک طالبان کی طرف عمران خان کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جماعتِ اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ اور اسلام آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے نام سامنے آئے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی طرف سے اپنی تنظیم میں سے افراد پر مشتمل ٹیم کا اعلان نا کرنا اس مذاکراتی عمل سے متعلق ان کے غیر سنجیدہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔
سلامتی کے امور کے ماہر اور سابق برگیڈیر اسد منیر کا کہنا تھا۔ ’’2002ء سے ایسا ہورہا ہے کہ جب انہیں (طالبان کو) پتہ چلتا ہے کہ ملٹری آپریشن ہونا ہے تو وہ بات چیت کرنے کی بات کردیتے ہیں۔ شاید یہ ایک دو گروہ بات چیت کے لیے تیار ہو جائیں مگر اس میں القاعدہ اور دیگر غیر ملکی تنظیمیں ہیں ان کا کیا کریں گے؟ ان کی جگہ کون بات چیت کرے گا؟‘‘
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم ’’مکمل اختیارات‘‘ رکھتی ہے تاہم شدت پسندوں کی طرف سے ان کی کمیٹی کے بارے میں ابھی وضاحت باقی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف سے پیر کو ملاقات میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔