پاکستان میں ایک طویل تاخیر کے بعد جمعرات کو انتخابات منعقد ہوئے لیکن گاہے گاہے تشدد اور ملک گیر سطح پر موبائل فون اور انٹر نیٹ کی بندش نے پولنگ کو متاثر کیا اور پہلے سےمتنازع انتخابات کی ساکھ کے بارے میں خدشات میں مزید اضافہ کیا ۔
جنوبی ایشیا کے اس ملک میں نو گھنٹے کی ووٹنگ کے بعد پولنگ اسٹیشن مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے بند ہو گئے اور پولنگ کا عمل زیادہ تر پر امن رہا ۔
لگ بھگ 12کروڑ 8 لاکھ اہل ووٹروں کے لیےپولنگ شروع ہونے سے کچھ ہی دیر قبل وزارت داخلہ کے صبح سویرے کے ایک اعلان میں کہا گیا کہ فون سروس میں خلل کا مقصد سیکیورٹی کے امکانی خطرات کو کم کرنا اور امن عامہ کو بر قرار رکھنا ہے ۔
وزار ت نے انٹر نیٹ کی بندش پر بات نہیں کی ، جو بدھ کو صوبے بلوچستان میں انتخابی دفاتر کے باہر الگ سے ہونےو الے ان بم دھماکوں کے بعد نافذ ہوئی تھی جن میں تیس لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔ اسلامی انتہا پسند گروپ داعش نے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔
انتخاب کے دن بھی ملک کے مختلف حصوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں متعدد لوگ ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر پولیس اہلکار تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی انتخاب جیتے گا وہ ایسے عوام کی خدمت کرے گا جو سیاسی نظام سے انتہائی مایوس ہیں ، انتخابی عمل پر بہت کم یقین رکھتے ہیں اور ملک کی معاشی بحالی کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں ۔
SEE ALSO: پاکستان انتخابات: نئی حکومت کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟تین بار اقتدار میں رہنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ کو طاقتور فوج کی پسندیدہ جماعت سمجھا جارہا ہے،جب کہ گزشتہ انتخابات میں منتخب ہونے والے وزیر اعظم عمران خان جیل میں ہیں۔ ان کی جماعت تحریک انصاف، یا پی ٹی آئی کے خلاف فوجی حمایت کی حامل پکڑ دھکڑ کے باعث بہت سے اس جمہوری مشق سے مایوس ہو چکے ہیں۔
لاہو ر کی فائزہ طارق نےجو پہلی بار ووٹ ڈال رہی تھیں کہا،" میں یہ سوچ کر باہر آئی ہوں کہ ممکن ہے میرا ووٹ اس ملک کے لیے اورہمارے لیے کچھ بہتری لے آئے۔"
فضل الرحمان ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے انتخابی عمل پر اعتماد کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے ووٹ نہیں ڈالا ۔ انہوں نے کہا،" میں ووٹ ڈالوں یا نہ ڈالوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جنہیں اقتدار میں آنا ہے وہی اقتدار میں آئیں گے ۔"
نزوارد عطا نے، جو بیرون ملک مقیم ایک پاکستانی خاتون ہیں کہا وہ پاکستان صرف ووٹ ڈالنے کے لیے واپس آئی ہیں تاکہ مبینہ نا انصافی کا مقابلہ کیا جا سکے ۔
بقول ان کےوہ پاکستان کے مقدر اور پاکستان کے مستقبل میں تبدیلی چاہتی ہے ۔ انعام خان جیسے دوسرے کئی ووٹروں نے مواصلاتی سروسز میں خلل پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا،"کیوں؟ کیا یہا ں کوئی جنگ ہورہی ہے؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کرتے رہیں؟ لوگ یہ کام بعد میں کر سکتے ہیں، انشاءاللہ ۔"
SEE ALSO: دھاندلی کے الزامات کے باوجود پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ’ووٹ‘ اہم ہےپاکستانی حکومت نے دنیا کے اس پانچویں سب سے گنجان آباد ملک کےہزاروں پولنگ اسٹیشنوں کے لیے سیکورٹی کی فراہمی پرساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ فوجی، نیم فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کیے تھے۔
فون اور انٹر نیٹ سروسز کی معطلی کے نتیجے میں پاکستان کی فوجی حمایت یافتہ عبوری حکومت پر پولنگ میں دھاندلی کی کوشش کے الزامات سامنے آئے،خاص طور پر عمران خان کی جماعت کے امیدواروں کو کامیابی حاصل کرنےسے روکنے کے لیے۔
عمران خان۔۔ مرکزی شخصیت
اکہتر سالہ مقبول سیاستدان عمران خان کوانتخابات سے قبل بد عنوانی اور دیگر انتہائی متنازع الزامات پر مجرم قرار دیا گیا اور قید کی طویل سزائیں سنائی گئی ہیں۔ کرکٹ ہیرو سے سیاسی لیڈر بننے والے کی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف کئی ماہ تک ملک گیر سطح پر پکڑ دھکڑ ہوئی جس میں سینکڑوں کارکنوں اور امیدواروں کو بغیر الزامات کے گرفتار کیا گیا اور صرف اس کے بعد رہا کیا گیا جب انہوں نے پارٹی چھوڑ دی یا انتخابات سے دستبردار ہو گئے ۔
پی ٹی آئی نے موبائل سروس کی بندش کے تھوڑی ہی دیر بعد ایکس پر لکھا، پاکستانیو، فاشسٹ حکومت نے پولنگ کے دن پورے پاکستان میں سیل فون سروسز بلاک کردی ہیں۔
ولسن سنٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا، جیل میں ہونے کے باوجود خان اب بھی انتخابات میں ایک مرکزی شخصیت ہیں۔ ان کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد برقرار ہے جو ان آزاد امیدواروں کو ووٹ دینا چاہیں گے جنہیں ان کی جماعت نے اسپانسر کیا ہے ۔
SEE ALSO: پاکستان کے انتخابات پر بین الاقوامی میڈیا کیا کہہ رہا ہے؟کوگل مین نے وی او اے کو بتایا،" ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ریاست موبائل سروسز معطل کر کے دھاندلی کا ایک ماحول تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس سے بہت سے پاکستانیوں کے اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے حق سے انکار کا خطرہ پیدا ہوتا ہے اور حکومت کے اس موقف پر شک پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے ۔"
انٹر نیٹ کی بندش پر تنقید
امریکہ نے انتخابات سے پہلے اور انتخابات کےدن، ہونے والے تشدد کے واقعات کی مذمت کی ہے ۔ امریکی محکمہ خارجہ کے اول نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا ، “ہم پولنگ کے دن پورے پاکستان میں انٹر نیٹ اور سیل فون پر رسائی پر پابندیوں کی رپورٹس کا جائزہ لے رہے ہیں ۔”
انہوں نے کہا ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر جمہوری اداروں کی اہمیت، آزاد پریس، ایک فعال سول سوسائٹی اور تمام پاکستانیوں کے لیے سیاسی شرکت کے وسیع مواقع تک رسائی پر زور دیتے رہیں گے۔
SEE ALSO: امریکی محکمہ خارجہ کی پاکستان کے انتخابات سے متعلق تشدد کی مذمتایمنیسٹی انٹر نیشنل نے انتخابات کے دن انٹر نیٹ کی بندش کو غیر ذمہ دارانہ اور اظہار اور پر امن اجتماع کی آزادی کے حق پر ایک کھلا حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ۔
وزارت عظمی کے ایک امیدوار بلاول بھٹو زرداری نے کمیونیکیشن سروسز کی معطلی پر تنقید کی ۔
بلاول زرداری نے ایکس پر پاکستان کے الیکشن کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا،" موبائل فون سروسز کو ملک بھر میں فوری طور پر بحال کیا جانا چاہیے ۔ میں نے اپنی پارٹی سے کہا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالت دونوں سے رجوع کرے ۔"
پاکستان میں سیل فون کے لگ بھگ 19 کروڑ سبسکرائبرز ہیں جو موبائل براڈ بینڈ سروسز استعمال کرتے ہیں ۔ سروس کی معطلی کی وجہ سے بہت سے ووٹر پولنگ اسٹیشنوں کے مقامات اور دوسری تفصیلات کا پتہ چلانے کے لیے الیکشن کمیشن کے ڈیٹا سسٹم تک رسائی نہیں کر سکے
پاکستان کےچیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان نے کہا کہ امن عامہ برقرار رکھنے سے متعلق سیکیورٹی کے اداروں کو فون سروسز معطل کرنے جیسے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار تھا ۔
سلطان نے اسلام آباد میں نامہ نگاروں کی جانب سے اس سوال پر کہ آیا کمیشن حکام کو سروس کی بحالی کی ہدایت کرے گا، کہا،"میں نہیں سمجھتا کہ کمیشن کو ان کے کام میں مداخلت کرنی چاہییے۔ـ"
SEE ALSO: ُپاکستان الیکشن:کیاانٹرنیٹ پر بندش قومی سلامتی کے خدشات کا حل ہے؟پاکستان کے مرکزی ٹی وی چینلز کے صحافیوں نے کہا کہ وہ، سروسز کی معطلی کی وجہ سے پورا دن فیلڈ سے دھاندلی کے واقعات یا دوسری بے قاعدگیوں کی فوری طور پر رپورٹنگ نہیں کر سکے ۔
ڈان نیوز چینل کے ایک پرائم ٹائم پولیٹیکل ٹاک شو کی میزبان عارفہ نور نے ایک لائیو شو کے دوران کہا, "اس بارے میں کوئی دو آراء نہیں ہیں، اس اقدام کا مقصد انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کرنا اور نیوز کوریج کو محدود کرنا تھا۔اصل بات یہی ہے۔"
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس سے قبل انتخابات سیکیورٹی کے کہیں زیادہ چیلنجوں اور دہشت گردی کے خطرات کے دوران منعقد ہوئے تھے لیکن ان میں کمیونی کیشن سروسز منقطع نہیں کی گئی تھیں۔
اسلام آباد کی قومی اسمبلی کے ایک آزاد امیدوار مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا،" پولنگ کے دن موبائل نیٹ ورک کو بند کرنا انتخابات کے دن دھاندلی کی شروعات ہے۔"
انہوں نے کہا،انتخاب کے دن امیدواروں کا رابطہ ان کے ایجنٹوں اور اسٹاف سے منقطع کرنا ناقابل قبول ہے ۔ کوئی کس طرح کسی بے قاعدگی کو چیک کر سکتا ہے اور اسے اجاگر کر سکتاہے ۔جب تک خبر باہر آئے گی ، تو الیکشن چوری ہو چکا ہو گا۔”
شریف کا اعتماد
شریف یہ کہتے ہوئے کہ،"کوئی مخلوط حکومت پاکستان کے اقتصادی مسائل حل نہیں کر سکے گی " بظاہر اس بارے میں پر اعتماد دکھائی دیے کہ ان کی جماعت جیت جائے گی اور خود اپنی حکومت بنائے گی ۔
اپنے آبائی شہر لاہور میں وو ٹ ڈالنے کے بعد انہوں نے کہا ،” خدارا مخلوط حکومت کا نام نہ لیں۔”
SEE ALSO: 'خدارا کسی مخلوط حکومت کی بات نہ کریں'پاکستان کی 342 رکنی جنرل اسمبلی کی 226 نشستوں کے لیے 5000 سے زیادہ امیدوار مقابلہ کر رہے تھے ۔ لگ بھگ 12600 امیدوار پاکستان کے چار صوبوں کی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے مقابلہ کر رہے تھے ۔
امریکہ میں قائم پولنگ کمپنی گیلپ کو انتخابات کے موقع پر ایک سروے سے معلوم ہوا کہ دو تہائی سے زیادہ پاکستانیوں میں اپنےملک کے انتخابات کی دیانتداری پر اعتماد نہیں ہے۔