پاکستان کی وزارت داخلہ نے پولنگ کے دوران بندش کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات نے اس اقدام کو ضروری بنا دیا تھا۔ تاہم ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت حقوق کے سرگرم کاکنوں اور رہنماؤں نے اس کی مذمت کی ہے اور ان کے خیال میں یہ آزادی اظہار پر ایک حملہ ہے۔
سیکیوریٹی کے بارے میں خدشات ظاہر کرتے ہوئے، حکام نے پولنگ شروع ہوتے ہی موبائل فون سروسز معطل کر دی تھیں اور مقامی وقت کے مطابق شام 5 بجے (1200 GMT) پول بند ہونے کے تین گھنٹے بعد انہیں بحال کرنا شروع کر دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے الیکشن کے دن انٹرنیٹ کی بندش لوگوں کے حقوق پر ایک عاقبت نا اندیشی پر مبنی حملہ ہے۔ ادارے کی جنوبی ایشیا کے لیے عبوری ڈپٹی ڈائریکٹر لیویا ساکارڈی نے کہا: "انتخابات کے دن ٹیلی کمیونیکیشن اور موبائل انٹرنیٹ سروسز کو معطل کرنے کا فیصلہ آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے حقوق پر ایک کھلا حملہ ہے۔
انسانی حقوق کے موقر ادارے کا کہنا ہے کہ معلومات تک رسائی میں رکاوٹ ڈالنا لاپرواہی ہے کیونکہ لوگ تباہ کن بم دھماکوں کے بعد پولنگ اسٹیشنوں کی طرف جا رہے ہیں اور ملک میں انتخابات سے قبل اپوزیشن کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حقوق کا احترام کرنے والا رویہ اپنائیں اور انٹرنیٹ تک رسائی پر عائد تمام پابندیاں فوری طور پر ختم کریں۔
لیویا سیکارڈی نے کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے یقین دہانیوں کے برعکس معلومات کی ترسیل پر غیر ضروری پابندیاں پاکستان میں اس نازک وقت میں لوگوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے کہا"بلینکٹ شٹ ڈاؤن لوگوں کی نقل و حرکت، ذریعہ معاش اور مشکل وقت سے گزرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور حکام پر ان کے اعتماد کو مزید مجروح کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگاروں نے پاکستان کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں سے بات کر کے بتایا تھا کہ انہیں کس طرح موبائل کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مطلوبہ پولنگ اسٹیشن تلاش کرنے کے لیے گھنٹوں بھٹکنا پڑا اور وہ اپنی شکایات الیکشن کمیشن کے دفتر تک پہنچانے میں ناکام رہے۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے پابندیاں ہٹانے پر زور دیتے ہوئے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ حقوق کا احترام کرنے والا طریقہ اپنائیں اور انٹرنیٹ تک رسائی پر عائد تمام پابندیوں کو فوری طور پر ہٹا دیں تاکہ لوگوں کی بروقت معلومات تک رسائی کو ممکن بنایا جا سکے اور پولنگ کے پورے عمل کے دوران الیکشن سے متعلق کسی بھی معاملے کو رپورٹ کیا جا سکے۔
اے ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نگہت داد نے، جو ایک وکیل ہیں اور پاکستان میں غیر منافع بخش ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن چلاتی ہیں، بلیک آؤٹ کو "پاکستانیوں کے جمہوری حقوق پر حملہ" قرار دیا۔
"موبائل فون سروسز کو بند کرنا قومی سلامتی کے خدشات کا حل نہیں ہے۔ اگر آپ معلومات تک رسائی بند کرتے ہیں تو آپ مزید افراتفری پیدا کرتے ہیں"۔
بی بی سی نے بھی پاکستانی الیکشن پر اپنے آرٹیکل"bi Polls close in vote marred by mobile shutdown میں موبائیل سروس بند کیے جانے سے ووٹنگ کے متاثر ہونے کا ذکر کیا ہے۔
اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ پولنگ کے ماہرین پہلے ہی کم ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کر رہے تھے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس سے پاکستان تحریک انصاف کے امکانات متاثر ہوں گے۔ موبائل سروس کی معطلی نے ووٹروں کے لیے اپنے پولنگ اسٹیشنوں کو تلاش کرنا مشکل بنا دیا۔ووٹنگ شروع ہونے سے صرف 10 منٹ قبل کالز اور ڈیٹا سروسز دونوں کو معطل کر دیا گیا تھا، حالانکہ وائی فائی نیٹ ورک بظاہر کام کر رہے تھے۔
ایک ووٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس فیصلے پر حیران ہیں، انہوں نے کہا کہ "اس طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے بجائے ووٹرز کو سہولت فراہم کی جانی چاہیے"۔ ایک اور نے کہا کہ وہ کسی مکمل بندش کی توقع کر رہی تھیں۔
لاہور شہر کے بہت سے ووٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا مطلب ہے کہ جا کر ووٹ ڈالنے کے لیے ٹیکسی بک کرنا ممکن نہیں ہے، جب کہ دوسروں نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے دیگر افراد سے بات چیت نہیں کر سکتے کہ پولنگ سٹیشن کب جانا ہے۔
پاکستان میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور جلد ہی کچھ نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔
فورم