11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد شروع ہونے والی انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی جنگ میں ان حملوں کی ذمہ دار تنظیم القاعدہ کی قوت ختم کرنے کے علاوہ اس کے روپوش سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔
لیکن ایک دہائی سے زائد عرصے تک لڑی جانے والی انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ملک پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے باعث پچاس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ ان کے ملک کا اس بارے میں بڑا واضح موقف ہے کہ اسلام آباد ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی افواج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے اور عسکریت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری ہے۔
امریکہ پر دہشت گردانہ حملوں کے 13 سال بعد اب عراق اور شام کے مختلف حصوں پر قبضہ کر کے مزید شدت پسندانہ کارروائیاں کرنے والے سنی انتہا پسند گروہ داعش کو عالمی سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے اس گروہ کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر نئی مہم شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
حال ہی میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ پاکستان کے شمال مغربی صوبے میں پشتو اور دری زبان میں تحریر کردہ پمفلٹس تقسیم کیے گئے جس میں داعش کا تعارف کا اس کے اغراض و مقاصد بیان کیے گئے۔
بعض حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ فی الوقت مشرق وسطیٰ کے لیے خطرہ سمجھا جانے والا یہ شدت پسند گروہ پاکستان کا بھی رخ کرسکتا ہے۔
لیکن دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان قطع نظر اس کے کہ یہ کون ہیں تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ "جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ یہاں یہ گروہ موجود ہے یا نہیں اس بارے میں مجھے علم نہیں اور نہ ہی حکومت نے اس کی تصدیق کی ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستانی فوج نے جون کے وسط میں قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک ساڑھے نو سو سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک اور ان کے متعدد ٹھکانوں کوتباہ کیا جاچکا ہے۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں سے پاکستان میں اس وقت حالات ماضی کی نسبت خاصے بہتر ہیں لیکن ان کے بقول پاکستان کو اس بارے میں مکمل طور پر باخبر اور تیار رہنا چاہیے کہ کوئی اور دہشت گرد گروہ یہاں قدم نہ جما سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ داعش پاکستان میں اتنا کامیاب ہو سکے جتنا وہ مشرق وسطیٰ میں ہوا۔
"پاکستان کو تو میں سمجھتا ہوں کہ یہی احتیاط کرنی چاہیے کہ داعش پاکستان نہ آئے، ویسے تو یہ گروہ ان ملکوں میں کامیاب ہوا جہاں پر افراتفری ہے مثلاً شام، لیبیا اور عراق وغیرہ جہاں پر کہ فوج اپنا کنٹرول کھو چکی ہے اور ان شدت پسندوں کو وہاں جگہ مل گئی۔ پاکستان میں اس کے باوجود کہ ہمارے بہت سے مسائل ہیں ایسی حالت نہیں، پاکستانی فوج اب بھی پوری طرح موثر ہے اور اس کا پوری طرح کنٹرول ہے۔"
تسنیم نورانی کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن سے بلاشبہ دہشت گردوں کو خاصا نقصان پہنچا ہے لیکن ان کے بقول ان کے سرکردہ کمانڈر راہ فرار اختیار کر کے مبینہ طور پر افغان علاقوں میں روپوش ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے مغربی ممالک کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے۔