سابق فوجی افسران کی ایک تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے طریقہ کار پر عوامی سطح پر اختلاف ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔
اسلام آباد —
طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے گزشتہ دو دنوں میں کراچی ائیر پورٹ اور اس کے قریب حملے اور مزید ایسی تشدد کی کارروائیوں کی دھمکیوں کے بعد نواز شریف انتظامیہ کے لیے ملک میں قیام امن اور سلامتی کی صورتحال کو قابو میں رکھنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
اس سنگین صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کی طرف سے منگل کو پارلیمان میں ایک بیان سامنے آیا کہ خونریز شدت پسندی کے موثر طور پر خاتمے کے لیے سیاسی و عوامی سطح پر اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی حکمت عملی میں بھی یک سوئی ہونی چاہیے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ائیر پورٹ پر شدت پسندوں کے مہلک حملے کے بعد تمام سکیورٹی آپشنز کا جائزہ لینا ہوگا۔ طالبان کی طرف سے مزید تشدد کی کارروائیوں کا عندیہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا:
’’جو ملٹری آپریشن کے لیے شور مچاتے تھے آج کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ اس پر سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں۔ تو پھر برداشت کریں۔ جب جنگ ہوتی ہے تو پھر اس غلط فہمی میں نا رہیں کہ اس طرف سے گولی جائے گی تو ادھر سے نہیں آئے گی۔ حالت جنگ میں متحد ہونا پڑتا ہے۔ ہر پٹاخے پر ردعمل نہیں دینا ہوتا۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہونے کی وجہ سے دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقہ کار اور حکمت عملی میں فرق ہے جو کہ ملک کی سلامتی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف پالیسیوں کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کی طرف سے عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
بلوچستان میں شیعہ زائرین پر اتوار ہی کو ہونے والے دو مہلک حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہو اگر سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر زائرین زمینی راستے کی بجائے دوسرے ذرائع آمدورفت استعمال کریں کیونکہ ’’کوئٹہ سے ایران سرحد تک 800 میل لمبے رستے کو مکمل طور پر محفوظ بنانا نا ممکن ہے‘‘۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے کراچی ائیر پورٹ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تشدد کی ایسی مزید کارروائیاں کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس حملے کے بعد مبصرین کا کہنا تھا کہ دو مہنیوں سے تعطل کے شکار مذاکرات عملاً ختم ہوگئے ہیں۔ تاہم نواز انتظامیہ کی طرف سے ابھی اس بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
ادھر سابق فوجی افسران کی ایک تنظیم پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے اپنے ایک اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے طریقہ کار پر عوامی سطح پر اختلاف ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل مسعود الحسن کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’اگر قوم انہیں کہے شاباش ہم آپ کے ساتھ ہیں تو ان کا حوصلہ اونچا ہوتا ہے مگر جیسے جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا تھا کہ فوجی شہید نہیں طالبان ہیں تو پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم لڑ کیوں رہے ہیں۔ وہ یقیناً وہاں ہمیشہ نہیں رہنا چاہتے اگر بات چیت سے امن ہو سکتا ہے تو ہوجائے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ڈھکونسلا ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی کو بھی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے دہشت گردی سمیت تمام اہم قومی امور پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کی طرف سے اسلام آباد پر تشدد کی کارروائیاں روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے اور امریکہ نے بھی کراچی ائیرپورٹ حملے کی تحقیقات میں پاکستان کو تعاون کی پیش کش کی ہے۔
اس سنگین صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کی طرف سے منگل کو پارلیمان میں ایک بیان سامنے آیا کہ خونریز شدت پسندی کے موثر طور پر خاتمے کے لیے سیاسی و عوامی سطح پر اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی حکمت عملی میں بھی یک سوئی ہونی چاہیے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ائیر پورٹ پر شدت پسندوں کے مہلک حملے کے بعد تمام سکیورٹی آپشنز کا جائزہ لینا ہوگا۔ طالبان کی طرف سے مزید تشدد کی کارروائیوں کا عندیہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا:
’’جو ملٹری آپریشن کے لیے شور مچاتے تھے آج کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ اس پر سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں۔ تو پھر برداشت کریں۔ جب جنگ ہوتی ہے تو پھر اس غلط فہمی میں نا رہیں کہ اس طرف سے گولی جائے گی تو ادھر سے نہیں آئے گی۔ حالت جنگ میں متحد ہونا پڑتا ہے۔ ہر پٹاخے پر ردعمل نہیں دینا ہوتا۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہونے کی وجہ سے دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقہ کار اور حکمت عملی میں فرق ہے جو کہ ملک کی سلامتی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف پالیسیوں کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کی طرف سے عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
بلوچستان میں شیعہ زائرین پر اتوار ہی کو ہونے والے دو مہلک حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہو اگر سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر زائرین زمینی راستے کی بجائے دوسرے ذرائع آمدورفت استعمال کریں کیونکہ ’’کوئٹہ سے ایران سرحد تک 800 میل لمبے رستے کو مکمل طور پر محفوظ بنانا نا ممکن ہے‘‘۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے کراچی ائیر پورٹ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تشدد کی ایسی مزید کارروائیاں کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس حملے کے بعد مبصرین کا کہنا تھا کہ دو مہنیوں سے تعطل کے شکار مذاکرات عملاً ختم ہوگئے ہیں۔ تاہم نواز انتظامیہ کی طرف سے ابھی اس بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
ادھر سابق فوجی افسران کی ایک تنظیم پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے اپنے ایک اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے طریقہ کار پر عوامی سطح پر اختلاف ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل مسعود الحسن کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’اگر قوم انہیں کہے شاباش ہم آپ کے ساتھ ہیں تو ان کا حوصلہ اونچا ہوتا ہے مگر جیسے جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا تھا کہ فوجی شہید نہیں طالبان ہیں تو پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم لڑ کیوں رہے ہیں۔ وہ یقیناً وہاں ہمیشہ نہیں رہنا چاہتے اگر بات چیت سے امن ہو سکتا ہے تو ہوجائے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ڈھکونسلا ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی کو بھی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے دہشت گردی سمیت تمام اہم قومی امور پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کی طرف سے اسلام آباد پر تشدد کی کارروائیاں روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے اور امریکہ نے بھی کراچی ائیرپورٹ حملے کی تحقیقات میں پاکستان کو تعاون کی پیش کش کی ہے۔