پاکستان کے وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمٰن نے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کو ملنے والی فنڈنگ یا مالی وسائل کے ذرائع کی 100 فیصد نشاندہی مشکل ہے۔
تاہم وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ کے بارے میں عمومی طور پر جن ذرائع کی نشاندہی کی گئی ہے اُن میں منشیات کی اسمگلنگ اور بھتہ وصول کرنے کے علاوہ بعض غیر ملکی حساس اداروں کی طرف سے ملنے والے وسائل شامل ہیں۔
لیکن اُنھوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت میں کون سے غیر ملکی انٹیلی جنس ادارے شامل ہیں۔
واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت ملک کے طول و عرض میں عسکریت پسندوں اور اُن کے حامیوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا اور اس قومی لائحہ عمل کے تحت دہشت گردوں کے مالی وسائل کو روکنا اور ختم کرنا بھی شامل تھا۔
انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے ایک بڑے حصے پر عمل درآمد کی ذمہ داری وزارت داخلہ کی ہے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی اداروں کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ دہشت گردوں کو بیرون ملک سے بھیجے جانے والے مالی وسائل کا پتہ لگا سکیں۔
’’ان ٹرانزیکشنز میں جس میں ہنڈی استعمال ہوتی ہے یا بینکنگ سہولیات استعمال ہوتی ہیں اس کام کے لیے تو میں سمجھتا ہوں کہ کھوج لگانے کی قابلیت ہے اور ہونی چاہیئے اور (پاکستان) کر سکتے ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ بدقسمتی سے ہماری توجہ اتنی زیادہ اس طرف نہیں ہے ہماری توجہ زیادہ بدعنوانی کے بارے میں ہے مگر جو دہشت گردی سے متعلق فنڈنگ ہے اس پر اتنی توجہ نہیں ہے جو ہونی چاہیئے۔‘‘
تسنیم نورانی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ عسکریت پسندوں کے سہولت کاروں اور اُن کو مالی اعانت فراہم کرنے والوں کا پتہ چلایا جائے۔
’’اس کو روکنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا آپ کسی دہشت گرد کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر پیسہ جو ہے وہ رک جائے، پیسے روکنے ہی سے تو بہت سی سرگرمیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘‘
اُدھر پاکستان کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق ملک میں 2016ء میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
وزارت داخلہ کی طرف سے ملک کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمع کروائے گئے ایک تحریری بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ تین سالوں کے مقابلے میں 2016ء میں دہشت گردی کے واقعات میں سب سے کم سے ہلاکتیں ہوئیں۔
بیان میں بتایا گیا کہ 2016ء میں دہشت گردی کے 785 واقعات میں 804 افراد ہلاک جب کہ 1914 زخمی ہوئے۔
اس سے قبل 2015ء میں دہشت گردی کے 1139 واقعات میں 838 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے جب کہ 1706 افراد زخمی ہوئے۔
وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا کہ رواں سال 2017ء میں اب تک دہشت گردی کے 10 واقعات میں پانچ افراد مارے گئے جب کہ ان واقعات میں 31 افراد زخمی ہوئے۔
سینیٹ میں جمع کروائے گئے بیان میں وزارت داخلہ کی طرف سے بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 2013ء سے2017ء میں اب تک دہشت گردی کے 5321 واقعات میں 4613 افراد مارے گئے جب کہ 12 ہزار 188 افراد زخمی ہوئے۔
رواں ماہ ہی پاکستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے ملک میں سلامتی کی صورت حال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ 2015ء کی نسبت 2016ء میں ملک میں دہشت گرد حملوں میں 28 فیصد کمی آئی ہے۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اگرچہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے لیکن رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ عسکری گروہ نئے علاقوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔