تھر میں خشک سالی کے اثرات سب سے پہلے پرندوں اور مویشیوں کی اموات کی صورت میں نمودار ہونا شروع ہوئے جس کے بعد بچے اس صورتحال سے شدید مثاتر ہوئے
پاکستان کے علاقے تھرپارکر میں خشک سالی سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال اور اس سے بچوں سمیت درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد وفاقی و صوبائی حکومتی ادارے امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔
یہاں ہونے والی اموات کی عمومی وجوہات میں غذائی قلت اور اس سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیاں بتائی جاتی ہیں۔
تھر کے علاقے میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم دھرتی ڈویلپمنٹ سوسائٹی کے روح رواں منصور ڈاہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ خشک سالی کے اثرات سب سے پہلے پرندوں اور جانوروں پر ظاہر ہونا شروع ہوئے اور متعلقہ اداروں کو تب ہی کوئی سنجیدہ اقدامات شروع کر دینے چاہیئے تھے۔
’’موروں کا مرنا جب شروع ہوا تو یہ علامت تھی کہ کچھ ہو رہا ہے تھرپارکر میں تو اس ٹائم نوٹس لینا چاہیئے تھا۔ نوٹس تو لیا لیکن وہ صرف میٹنگ کی حد تک تھا۔ جب لوگ مرنا شروع ہوئے تو پھر یہ حکومت نے نوٹس لیا لیکن ان کی اس خاموشی سے بہت سی جانیں چلی گئیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال تھر میں ہونے والی بارشیں ناکافی تھیں جس سے یہاں حالات بتدریج خراب ہوتے چلے گئے۔
’’ کنویں سوکھ گئے، پانی خشک ہوگیا، خشک سالی سے مویشیوں کا چارہ ختم ہوگیا، خوراک کی کمی اور دودھ نہیں ملتا رہا اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ سب سے پہلے وہاں اس سے مویشی متاثر ہوئے پھر بچے اس کا شکار ہوئے۔‘‘
سندھ حکومت تھرپارکر میں گندم کی فراہمی میں ہونے والی غفلت کو تسلیم کر چکی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کوتاہی کے ازالے کے لیے اب شدو مد سے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غذائیت کی کمی کو دور کرنے کے لیے بھی سامان مہیا کیا جائے گا۔
’’کچھ اور بھی ٹرکس آنا شروع ہوں گے جن میں توانائی اور غذائیت سے بھرپور خوراک کے پیکٹ ہوں گے جو ہم یہاں لوگوں کو دیں گے۔‘‘
اسلام کوٹ، مٹھی، ننگرپارکر سمیت تھر کے آفت زدہ علاقوں میں عارضی اسپتال بھی قائم کیے جارہے ہیں۔
ادھر وزیراعظم نوازشریف بھی یہ اعلان کر چکے ہیں وفاقی حکومت اور اس کے ادارے تھر میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
فوج اور رینجرز کے علاوہ دیگر غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ضروری امدادی سامان اور ادویات علاقے میں پہنچا دی گئی ہیں لیکن حکام بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں متعدد دورافتادہ علاقوں تک ان کی تاحال رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی تھر میں ہونے والی ہلاکتوں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سندھ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کو پیر کو طلب کر رکھا ہے۔
یہاں ہونے والی اموات کی عمومی وجوہات میں غذائی قلت اور اس سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیاں بتائی جاتی ہیں۔
تھر کے علاقے میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم دھرتی ڈویلپمنٹ سوسائٹی کے روح رواں منصور ڈاہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ خشک سالی کے اثرات سب سے پہلے پرندوں اور جانوروں پر ظاہر ہونا شروع ہوئے اور متعلقہ اداروں کو تب ہی کوئی سنجیدہ اقدامات شروع کر دینے چاہیئے تھے۔
’’موروں کا مرنا جب شروع ہوا تو یہ علامت تھی کہ کچھ ہو رہا ہے تھرپارکر میں تو اس ٹائم نوٹس لینا چاہیئے تھا۔ نوٹس تو لیا لیکن وہ صرف میٹنگ کی حد تک تھا۔ جب لوگ مرنا شروع ہوئے تو پھر یہ حکومت نے نوٹس لیا لیکن ان کی اس خاموشی سے بہت سی جانیں چلی گئیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال تھر میں ہونے والی بارشیں ناکافی تھیں جس سے یہاں حالات بتدریج خراب ہوتے چلے گئے۔
’’ کنویں سوکھ گئے، پانی خشک ہوگیا، خشک سالی سے مویشیوں کا چارہ ختم ہوگیا، خوراک کی کمی اور دودھ نہیں ملتا رہا اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ سب سے پہلے وہاں اس سے مویشی متاثر ہوئے پھر بچے اس کا شکار ہوئے۔‘‘
سندھ حکومت تھرپارکر میں گندم کی فراہمی میں ہونے والی غفلت کو تسلیم کر چکی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کوتاہی کے ازالے کے لیے اب شدو مد سے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غذائیت کی کمی کو دور کرنے کے لیے بھی سامان مہیا کیا جائے گا۔
’’کچھ اور بھی ٹرکس آنا شروع ہوں گے جن میں توانائی اور غذائیت سے بھرپور خوراک کے پیکٹ ہوں گے جو ہم یہاں لوگوں کو دیں گے۔‘‘
اسلام کوٹ، مٹھی، ننگرپارکر سمیت تھر کے آفت زدہ علاقوں میں عارضی اسپتال بھی قائم کیے جارہے ہیں۔
ادھر وزیراعظم نوازشریف بھی یہ اعلان کر چکے ہیں وفاقی حکومت اور اس کے ادارے تھر میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
فوج اور رینجرز کے علاوہ دیگر غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ضروری امدادی سامان اور ادویات علاقے میں پہنچا دی گئی ہیں لیکن حکام بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں متعدد دورافتادہ علاقوں تک ان کی تاحال رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی تھر میں ہونے والی ہلاکتوں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سندھ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کو پیر کو طلب کر رکھا ہے۔