تھر متاثرین کے لیے مزید وسائل درکار

فائل فوٹو

آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے مطابق جنوری سے اب تک تھر میں 80 بچوں کی اموات کی تصدیق ہوئی ہے۔
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں خشک سالی کے باعث قحط کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے تعاون سے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ کے عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ متاثرین کے لیے امدادی کام کو مزید تیز کرنے کے لیے وسائل فوری طور پر درکار ہیں۔

آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ کے ترجمان بریگیڈئیر کامران ضیا نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ امدادی کاموں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ زمینی صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ حالات کو مزید نا بگڑنے دیا جائے۔

’’چار شعبوں میں کام ہو رہا ہے، جن میں خوراک، پانی، صحت اور جانوروں کی بیماریوں سے نمٹنا شامل ہے۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ جنوری سے اب تک تھر میں 80 بچوں کی اموات کی تصدیق ہوئی ہے۔

کامران ضیا کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے بھی اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تھر میں خوراک کی قلت کے باعث بچوں کی اموات کی خبریں سامنے آنے کے بعد عدالت عظمٰی نے بھی صورت حال کا نوٹس لیا۔ تاہم حکام کے مطابق بچوں کی اموات کی وجہ محض غذائی قلت نہیں ہے۔

تھرپارکر میں خشک سالی سے متاثرہ خاندانوں کی امداد کے لیے رواں ماہ وزیراعظم نواز شریف نے ایک ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا جب کہ سندھ حکومت نے بھی خوراک کے ذخائر تھر منتقل کرنے کے علاوہ ادویات اور ڈاکٹر علاقے میں بجھوا رکھے ہیں۔

فوج کی ٹیمیں بھی امدادی کاموں میں مصروف ہیں اور ابتدا میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے خوراک متاثرہ خاندانوں تک پہنچائی گئی۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے جب کہ سرکاری جائزہ رپورٹس کے مطابق بھی خاص طور پر پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ایک بڑی تعداد کو مطلوبہ غذا میسر نہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی قلت بچوں میں بیماریوں کا سبب بننے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں عموماً بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اور گزشتہ دو سالوں کے دوران اس علاقے میں نا ہونے کے برابر بارشیں ہوئیں جو خشک سالی کا سبب بنیں۔