دی آڈ کپل یا نرالہ جوڑا امریکی سٹیج کا ایک کلاسیکل کھیل ہے اور یہ انتہائی متضاد شخصیات کے حامل دو دوستوں کی کہانی ہے جواپنی بیویوں سے حال ہی میں علیحدہ ہونے کے بعد ایک ہی گھر میں اکٹھے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں امریکی مصنف نیل سائمن کا لکھا ہوا یہ ڈرامہ رواں ہفتے امریکہ اور پاکستان کے اشتراک سے پیش کیا جا رہا ہے اور اس کی ابتدا اسلام آباد میں نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے کی گئی۔
دارالحکومت میں خاص طور پرفارمنگ آرٹس کا شوق رکھنے والوں نے اسے خاصی دلچسپی سے دیکھا اوراس اشتراک کو سراہا۔ اس کھیل کے تمام کردار پاکستانی فنکار ہیں جبکہ اس کے ہدایتکار امریکی اسٹیج کے ممتاز ڈائریکٹر اور امریکہ کے ثقافتی سفیر ایلن ناس ہیں جوخاص طور پر اس ڈرامے کو پیش کرنے کے لیے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔
دی آڈ کپل کے مرکزی کرداروں کے نام فیلکس اور آسکر ہیں۔ ان میں فیلکس ایک صفائی پسند اورانتہائی منظم انداز میں زندگی گزارنے والا شخص ہے جبکہ آسکر بے ترتیب اور لاپروائی سے زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن انفرادی سوچ میں اس غیر معمولی تضاد کے باجود دونوں ایک ہی گھر میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ایک انتہائی صبر آزما اور محبت بھری مزاحیہ صورت حال جنم لیتی ہے۔
امریکی اور پاکستانی فنکاروں کے اشتراک سے یہ اسٹیج ڈرامہ ایک ایسے وقت پیش کیا جا رہا ہے جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی عروج پر ہے جسے کم کرنے کے لیے طرفین مسلسل سفارتی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس تناظر میں ڈرامہ دی آڈ کپل کی کہانی حسب حال دیکھائی دیتی ہے کیونکہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کی طرح اس کھیل کے دونوی مرکزی کردار بھی تمام تر اختلافا ت کے باوجود اکٹھے رہنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں کیونکہ دونوں اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اسی میں اُن کا مفاد پنہاں ہے۔
مبصرین اور شائقین کے خیال میں اس اسٹیج ڈرامے سے بظاہر پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات اورعدم برداشت کے رویوں کا مسئلہ اجاگر کرنا اور یہ پیغام دینا مقصود ہو سکتا ہے کہ دو دوستوں یا پھر دو ملکوں میں نظریاتی وثقافتی اختلافات زندگی کی حقیقتیں ہیں لیکن مقصد مشترکہ ہو تو برداشت اور سمجھوتوں کے ذریعے دوستی و تعلقات کو فروع دینا ممکن ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے دی آڈ کپل کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کسی حد تک کھیل کے مرکزی کرداروں فیلکس اور آسکر سے ملتے جلتے ہیں۔
ڈرامے کے ہدایتکار ایلین ناس کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کھیل کا انجام ویسا خوشگوار نہیں جیسا کہ پریوں اور شہزادوں کی کہانیوں میں ہوتا ہے لیکن اس میں اُمید کا ایک پیغام ضرور ہے۔ ایلن ڈرامے کے کسی کردار کا امریکہ یا پاکستان سے موازنہ کرنے سے گریزاں ہیں لیکن اُن کے خیال میں آسکر اور فیلکس کی بعض خصوصیات دونوں ملکوں سے ملتی جلتی ہیں۔
ایلن کہتے ہیں کہ اس کھیل کو دیکھنے کے بعد آپ جاتے وقت ضرور سوچیں گے کہ ڈرامے کے دونوں مرکزی کرداروں کی طرح اپنی پہچان یا پھر اپنی خودمختاری پر سمجھوتا کیے بغیرمل بیٹھ کر اور گفت و شنید سے اکٹھے رہنے کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
ڈرامے میں کردار ادا کرنے والے پاکستانی فنکاروں کا کہنا ہے کہ انگریزی زبان میں ادائیگی اور پھر نیویارک کے ماحول کو کردار میں سمونا آسان کام نہیں تھا لیکن ہدایتکار ایلن کی تربیت نے اُن کی ہر مشکل آسان کردی ۔ ڈرامے میں آسکر کا کردار عاطف صدیق نامی نوجوان پاکستانی فنکار نے کیا۔
نوجوان اسٹیج آرٹسٹ فیصل امتیاز نے ڈرامہ دی آڈکپل میں فیلکس کے کردار ادا کیا ہے اور کسی بین الاقوامی پروڈکشن میں یہ اُن کا پہلا تجربہ ہے۔
عاطف صدیق کہتے ہیں کہ اس ڈرامے میں حصہ لینے کے بعد انھیں امریکی ثقافت کو قریب سے جاننے کا موقع ملا ہے اور ایسی مشترکہ کوششوں کو فروغ دے کر امریکہ میں پاکستانی ثقافت کے مثبت پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
ڈرامے کے پروڈیوسر فاطم ارباب کہتے ہیں کہ دی آڈ کپل کو شائقین نے بہت زیادہ سراہا کیونکہ ان کے بقول سیاست کو فن سے نا جوڑا جائے اور مثبت ماحول میں دو قوموں یا دو ثقافتوں کے امتزاج سے ہمیشہ ایک خوبصورت شاہکار تخلیق پاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے لوگوں کے درمیان رابطوں کو بڑھانے سے ایک دوسرے کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو غلط تاثرات پیش کیے جا رہے ہیں انھیں دور کرنے میں مدد ملے گی۔
ڈرامے میں آسکر اور فیلکس کے ہمسائے کا کردار ادا کرنے والی ارم رحمن کہتی ہیں کہ اس طرح کی مزید کوششوں سے بہتر پاک امریکہ تعلقات کو فروغ دینے میں مدد ملے گی ۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی فطرت ہر وقت تصادم اور تنازعات میں الجھے رہنا ہی نہیں بلکہ کبھی کبھار یہ زندگی کا مزہ لینے کا بھی تقاضا کرتی ہے۔
دارالحکومت میں سنیما اور تھییٹر جیسی سرگرمیوں کی عدم موجودگی میں پرفارمنگ آرٹس کی یہ مشترکہ کوشش اسلام آباد میں ایسی تفریح کے شوقین افراد کے لیے ایک نادر موقع تھی۔ خاص طور پر نوجوان پاکستانی فنکاروں نے امریکی ثقافت کی عکاسی کرنے والے انگریزی زبان کے اس ڈرامے میں اپنے کرداروں کو جس خوبی سے نبھایا ہے وہ یقینا قابل ستائش ہے۔