پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکومتوں نے سیاحت کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے، جس کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا۔
پاکستان میں زیادہ تر پہاڑی سیاحتی علاقے صوبہ خیبر پختونخواہ، ملک کے شمالی علاقے گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہی ہیں۔
لیکن گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران دہشت گردی کے واقعات اور امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سیاح ان علاقوں میں جانے سے ہچکچاہٹ کا شکار رہے اور اسی سے سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔
واضح رہے کہ ملک کے پہاڑی اضلاع میں آباد لوگوں کا زیادہ تر دارومدار سیاحت ہی سے وابستہ ہے۔
اسی سلسلے میں پاکستان کے زیرانتظام کمشیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے سیاحت کے فروغ کے لیے مشترکہ اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کمشیر کے وزیر سیاحت عبدالسلام بٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کشمیر میں آنے والے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد خیبر پختونخواہ کے راستے کشمیر کے سیاحتی علاقوں کا رخ کرتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں حکومتوں نے سیاحوں کی سہولت کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
’’جو پونچھ کی طرف لوگ آتے یا زیادہ تر نیلم کی طرف، مظفرآباد، چناری، چکوٹھی اور باغ کی طرف جاتے ہیں ان لوگوں کو (آمد ورفت کی)سہولت فراہم کرنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت سے ہمارا معاہدہ ہو جائے تاکہ لوگوں کو آمدورفت میں آسانی ہو جائے۔ گزشتہ سال بھی یہاں (کشمیر میں ) دس بارہ لاکھ (سیاح) آئے تھے اور امید ہے اتنی ہی تعداد میں لوگ اس سال (کشمیر ) آئیں گے۔‘‘
اندرون ملک اور دیگر ممالک سے آنے والے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کی منزل کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے پہاڑی علاقے ہی ہوتے ہیں۔
لیکن سڑکوں کی خراب صورت حال، رہائش کے لیے مناسب جگہوں کی کمیابی کی وجہ سے سیاحوں کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔