سابق وزیراعظم نواز شریف نے سوشل میڈیا پر سرگرم اپنی جماعت کے حامیوں کی مبینہ گمشدگیوں اور انھیں ہراساں کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان واقعات کو ذرائع ابلاغ کی آزادی پر ایک حملہ قرار دیا ہے۔
ہفتہ کو لندن سے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ہر شہری کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ آزادی اظہار کے حق اور تحفظ کو یقینی بنائے۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب جمعہ کو ہی وفاقی تفتیشی ادارے نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ریاستی اداروں کی توہین کے مترادف مواد شائع کرنے کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کیا تھا۔
ادارے کے سائبر کرائمز ونگ نے راولپنڈی سے انور عادل تنولی اور واجد رسول ملک کو گرفتار کیا جنہیں تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
دو روز قبل ابرار احمد نامی اسلام آباد کے ایک رہائشی نے درخواست جمع کروائی تھی کہ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں جاری ہیں جو کہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہوئے عوام میں بے چینی اور حکومت اور ریاستی اداروں کے لیے نفرت اور توہین کا باعث بن رہی ہیں۔
اس درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے ان دو افراد کو حراست میں لیا گیا اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہوئے ایسا مواد شائع کیا جو سپریم کورٹ کے ججز، مسلح افواج اور حکومت کے عہدیداروں کے بارے میں بدنیتی پر مبنی معلومات پھیلانے کی کوشش کی۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ انور عادل حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے حامیوں میں سے ہیں اور انھیں اس طرح اچانک تحویل میں لیے جانے پر جماعت کے حامیوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے پہلے بھی یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ جولائی میں نواز شریف کی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کے منصب سے سکبدوشی کے بعد سے سوشل میڈیا پر ان کے ہمدردوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
ایک روز ہی قبل وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے ایف آئی اے کو ہدایت کی تھی کہ وہ سوشل میڈیا پر انتہا پسندی اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف موثر اقدام کرے۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے ایک سرگرم کارکن اسامہ خلجی کہتے ہیں کہ تنقید کا حق ہر شہری کو حاصل ہے اور تنقید کرنے والوں کو اس طرح سے گرفتار کیا جانا ان کے بقول درست نہیں۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ " جج ہیں، فوجی ہیں یا سیاستدان ہیں وہ سب پاکستان کے اداروں میں کام کرتے ہیں وہ انسان ہیں اور ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور اگر ان سے غلطی ہو سکتی ہے تو ان پر تنقید کرنے کا ہمیں پورا حق ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے عوام کے ٹیکس سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔"
رواں سال سوشل میڈیا پر سرگرم مختلف افراد کو ایسے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں منافرت کے علاوہ توہین مذہب سے متعلق مواد کی اشاعت بھی شامل ہے۔