پاکستان کو پیر کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تیسری مرتبہ انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب کیا اور اس نئی مدت کا آغاز یکم جنوری 2013ء سے ہو گا۔
نیویارک/اسلام آباد —
پاکستان کو تیسری مرتبہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی) کا رکن منتخب کر لیا گیا ہے جسے ناقدین ایک خوش آئند پیش رفت قرار دے کر اس توقع کا اظہار کر رہے ہیں کہ اندرون ملک انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت کو بہتر کرنے پر حکومت اب زیادہ توجہ دے گی۔
نیویارک میں پیر کو پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خان نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 193 اراکین میں سے اُن کے ملک نے 171 ووٹ حاصل کیے جو انسانی حقوق کے لیے پاکستان کے مضبوط عزم کا مظہر اور بطور ایچ آر سی کے بانی ممبر اُس کی خدمات پر بین الاقوامی برادری کے اعتماد کا اظہار ہے۔
’’ہماری پوری قیادت، تمام سیاسی قوتیں اور قومی ادارے انسانی حقوق کے فروغ اور ان کے تحفظ کی حمایت کرتے ہیں۔ انسانی حقوق ہمارے قومی ایجنڈے میں اہم ترین ترجیحات میں سے ایک ہے۔‘‘
پاکستان اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا رکن ایک ایسے وقت منتخب ہوا ہے جب اندرون ملک ناقدین انسانی حقوق کی ’’سنگین‘‘ خلاف ورزیوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ بلوچستان میں صوبے کے لیے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کرنے والے قوم پرستوں کی آواز دبانے کے لیے سکیورٹی فورسز ماورائے عدالت کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
اس کے علاوہ صوبے میں تعینات نیم فوجی فرنٹیئر کور پر لاپتہ افراد کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی تواتر سے لگائے جا رہے ہیں۔
لیکن پاکستانی حکام ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں ملک کی اقلیتی ہندو اور عیسائی برادری کے خلاف بھی مسلمان انتہا پسندوں کے حملوں میں شدت آئی ہے اور حکومت کے ناقدین اس کی بڑی وجہ توہین رسالت اور بعض دیگر ایسے قوانین کو قرار دیتے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور دفتر خارجہ کے نام مبارک باد کے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یہ کامیابی پاکستان میں ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں منفی اثر کو بھی زائل کرے گی‘‘۔
انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں، اقلیتی برادری کے نمائندوں اور قوم پرست بلوچ رہنماؤں نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کی کونسل کا ایک بار پھر رکن منتخب ہونا ایک خوش آئندہ پیش رفت ہے مگر اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوئے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں ملک میں انسانی حقوق کی عمومی صورت حال بتدریج خراب ہوئی ہے اور اس کا اظہار عالمی طور پر جاری ہونے والی رپورٹوں میں بھی کیا گیا ہے۔
’’میرے خیال میں یہ ( اقوام متحدہ کی کونسل میں پاکستان کا انتخاب) اس بات کا اعتراف نہیں کہ پاکستان نے انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کچھ حاصل کیا ہے مگر اس کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کیے جانے والے وعدے کے بعد اب اس کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ ہمارے لیے اس میں کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہے۔‘‘
بلوچ قوم پرست رکن پارلیمان سینیٹر میر حاصل بزنجو نے اُمید ظاہر کی ہے کہ حکومت پاکستان کو اپنی بین الاقوامی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے اندرون ملک انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ پر اب زیادہ توجہ دینا ہو گی۔
’’پاکستان کو اگر یہ رُتبہ مل گیا تو اس کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں تاکہ یہاں پر جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اُن کا سدباب کیا جا سکے۔ اگر اس کو روک نہیں پائیں گے تو میرے خیال میں خود ان کی ساکھ بین الاقوامی سطح پر خراب ہو گی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2006ء میں انسانی حقوق کونسل قائم کی تھی اور پاکستان اُسی سال پہلی مرتبہ اس کا رکن منتخب ہوا تھا۔
ایچ آر سی 47 رکن ملکوں پر مشتمل ہے جن کا انتخاب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 ممبران براہ راست اور خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرتے ہیں۔
جنیوا میں قائم یہ کونسل 13 افریقی ممالک، 13 ایشیائی، 6 مشرقی یورپ، 8 لاطینی امریکہ اور جزائر غرب الہند یا کرییبین، جبکہ 7 مغربی یورپ اور دیگر ریاستوں پر مشتمل ہے۔
اس کا مینڈیٹ انسانی حقوق کا فروغ اور تحفظ، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنا ہے۔
نیویارک میں پیر کو پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خان نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 193 اراکین میں سے اُن کے ملک نے 171 ووٹ حاصل کیے جو انسانی حقوق کے لیے پاکستان کے مضبوط عزم کا مظہر اور بطور ایچ آر سی کے بانی ممبر اُس کی خدمات پر بین الاقوامی برادری کے اعتماد کا اظہار ہے۔
’’ہماری پوری قیادت، تمام سیاسی قوتیں اور قومی ادارے انسانی حقوق کے فروغ اور ان کے تحفظ کی حمایت کرتے ہیں۔ انسانی حقوق ہمارے قومی ایجنڈے میں اہم ترین ترجیحات میں سے ایک ہے۔‘‘
پاکستان اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا رکن ایک ایسے وقت منتخب ہوا ہے جب اندرون ملک ناقدین انسانی حقوق کی ’’سنگین‘‘ خلاف ورزیوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ بلوچستان میں صوبے کے لیے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کرنے والے قوم پرستوں کی آواز دبانے کے لیے سکیورٹی فورسز ماورائے عدالت کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
اس کے علاوہ صوبے میں تعینات نیم فوجی فرنٹیئر کور پر لاپتہ افراد کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی تواتر سے لگائے جا رہے ہیں۔
لیکن پاکستانی حکام ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں ملک کی اقلیتی ہندو اور عیسائی برادری کے خلاف بھی مسلمان انتہا پسندوں کے حملوں میں شدت آئی ہے اور حکومت کے ناقدین اس کی بڑی وجہ توہین رسالت اور بعض دیگر ایسے قوانین کو قرار دیتے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور دفتر خارجہ کے نام مبارک باد کے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یہ کامیابی پاکستان میں ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں منفی اثر کو بھی زائل کرے گی‘‘۔
انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں، اقلیتی برادری کے نمائندوں اور قوم پرست بلوچ رہنماؤں نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کی کونسل کا ایک بار پھر رکن منتخب ہونا ایک خوش آئندہ پیش رفت ہے مگر اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوئے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں ملک میں انسانی حقوق کی عمومی صورت حال بتدریج خراب ہوئی ہے اور اس کا اظہار عالمی طور پر جاری ہونے والی رپورٹوں میں بھی کیا گیا ہے۔
’’میرے خیال میں یہ ( اقوام متحدہ کی کونسل میں پاکستان کا انتخاب) اس بات کا اعتراف نہیں کہ پاکستان نے انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کچھ حاصل کیا ہے مگر اس کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کیے جانے والے وعدے کے بعد اب اس کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ ہمارے لیے اس میں کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہے۔‘‘
بلوچ قوم پرست رکن پارلیمان سینیٹر میر حاصل بزنجو نے اُمید ظاہر کی ہے کہ حکومت پاکستان کو اپنی بین الاقوامی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے اندرون ملک انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ پر اب زیادہ توجہ دینا ہو گی۔
’’پاکستان کو اگر یہ رُتبہ مل گیا تو اس کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں تاکہ یہاں پر جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اُن کا سدباب کیا جا سکے۔ اگر اس کو روک نہیں پائیں گے تو میرے خیال میں خود ان کی ساکھ بین الاقوامی سطح پر خراب ہو گی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2006ء میں انسانی حقوق کونسل قائم کی تھی اور پاکستان اُسی سال پہلی مرتبہ اس کا رکن منتخب ہوا تھا۔
ایچ آر سی 47 رکن ملکوں پر مشتمل ہے جن کا انتخاب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 ممبران براہ راست اور خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرتے ہیں۔
جنیوا میں قائم یہ کونسل 13 افریقی ممالک، 13 ایشیائی، 6 مشرقی یورپ، 8 لاطینی امریکہ اور جزائر غرب الہند یا کرییبین، جبکہ 7 مغربی یورپ اور دیگر ریاستوں پر مشتمل ہے۔
اس کا مینڈیٹ انسانی حقوق کا فروغ اور تحفظ، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنا ہے۔