افغانستان میں غیر ملکی افواج کے امریکی کمانڈر جمعرات کے روز پاکستان پہنچے جہاں، حکام کے مطابق، اُنھوں نے پاکستان فوج کے سربراہ سے افغان مفاہمتی کوششوں کے بارے میں بات چیت کی۔
جنرل آسٹن اسکوٹ مِلر کا یہ دورہ ایسے میں ہوا جب افغانستان سے امریکی فوج کے ممکنہ انخلا کی اطلاعات ہیں جب کہ 17 برس سے جاری افغان لڑائی کے خاتمے کے لیے طالبان باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات کی نئی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
فوج کے ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے جنرل جاوید باجوہ نے جنرل مِلر کو بتایا کہ پاکستان افغان امن کوششوں میں پُرعزم ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’دونوں نے افغان صورت حال کے سیاسی حل کی اہمیت کے بارے میں یکساں خیالات کا اظہار کیا، اور اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ صرف افغان قیادت والے مذاکرات، جن میں سبھی شریک ہوں، اُس کے نتیجے میں ہی افغانستان میں امن آسکتا ہے‘‘۔
پاکستان نے، جس پر افغان طالبان رہنماؤں کو پناہ دینے کا الزام ہے، دسمبر کے اوائل میں متحدہ عرب امارات میں امریکہ اور سرکش حکام کے مابین براہ راست دو روزہ ’’امن مذاکرات‘‘ منعقد کرانے کا سہرا اپنے سر باندھا ہے۔ سعودی عرب، پاکستان اور میزبان ملک کے نمائندگان نے بھی اِن مذاکرات میں شرکت کی تھی۔
طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اُس کے نمائندوں نے افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا سے متعلق امریکی مذاکرات کاروں سے’’تاریخ یا نظام الاوقات‘‘ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، چونکہ امن کی راہ میں اُن کی موجودگی ’’سب سے بڑی رکاوٹ‘‘ ہے۔
ابھی یہ بات واضح نہیں کہ آیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کے بارے میں اطلاعات کہ وہ افغانستان سے 14000 سے زائد امریکی فوجوں میں سے نصف کو واپس بلائیں گے، ابو ظہبی میں نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان میں ہونے والی ملاقات کا نتیجہ ہے۔ جب کہ امریکی حکام کی جانب سے فوج کی تعداد میں ممکنہ کمی کی رپورٹوں کی تصدیق نہیں ہوئی۔
طالبان اور امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد دونوں نے متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات کو ’’نتیجہ خیز‘‘ قرار دیا ہے، اور اس بات کا عہد کیا ہے کہ بہت جلد اسی مقام پر پھر ملاقات ہو گی۔