پاکستانی سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ہماری بات چیت میں اہم نکتہ انٹلیجنس کے تبادلے کو بہتر کرنا تھا۔ اب یہ نظام اتنا موثر نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا۔
پاکستان اور امریکہ کے اعلیٰ دفاعی عہدیداروں کے مابین ہونے والے دو روزہ مذاکرات منگل کو ختم ہوئے جس میں دفاع کے شعبے میں دونوں ملکوں کے کثیر الجہتی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔
بات چیت میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری دفاع آصف یاسین ملک نے کی اور انھوں نے مذاکرات کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کو اب ماضی میں الجھے رہنے کی بجائے مستقبل پر نظر رکھنی چاہیئے۔
’’یہ مذاکرات ہمارے خیال میں نہ صرف دفاعی شعبے میں بلکہ خطے اور بین الاقوامی تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے فیصلہ کن ہوں گے۔‘‘
پاک امریکہ مشاورتی گروپ کے آخری مذاکرات یکم مئی 2011ء میں ہوئے مگر اس کے ایک روز بعد پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے حملے میں القاعدہ کے رہنما اوسامہ بن لادن اور پھر نومبر میں پاکستانی سرحدی چیک پوسٹ پر نیٹو حملے میں فوجیوں کی ہلاکتوں سے دونوں ممالک کے تعلقات منقطع ہو گئے۔
سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان دیرپا اور باہمی مفادات پر مبنی تعلقات استوار کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی اور ان معاملات پر غور بھی کیا گیا جو دوطرفہ تعلقات میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
آصف یاسین ملک نے بتایا کہ پاکستان کی جانب پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کی نقل و حمل اور ان کے خلاف موثر کارروائیوں کی غرض سے خفیہ معلومات کے تبادلے کے نظام کو تیز اور فعال بنانے کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
’’ہماری بات چیت میں اہم نکتہ انٹلیجنس کے تبادلے کو بہتر کرنا تھا۔ اب یہ نظام اتنا موثر نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ ہم نے تجاویز دی ہیں۔‘‘
مذاکرات کے بعد جاری ایک مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں وفود نے ایک دوسرے کو دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی پاکستان اور اتحادی افواج کی کوششوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
امریکی وفد کے سربراہ معاون وزیر دفاع جیمز ملر نے میڈیا کو بتایا کہ دونوں ممالک مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بات چیت میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو اتحادی اعانتی فنڈ کی ادائیگی کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور جیمز ملر نے بتایا کہ اس معاملے کو امریکہ کانگریس کے سامنے رکھا جائے گا تاکہ اس کی بروقت ادائیگی کو ممکن بنایا جا سکے۔
تاہم پاکستانی سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں اس حوالے سے کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے اخراجات ادائیگی میں تاخیر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کی ایک وجہ رہی ہے۔
بات چیت میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری دفاع آصف یاسین ملک نے کی اور انھوں نے مذاکرات کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کو اب ماضی میں الجھے رہنے کی بجائے مستقبل پر نظر رکھنی چاہیئے۔
’’یہ مذاکرات ہمارے خیال میں نہ صرف دفاعی شعبے میں بلکہ خطے اور بین الاقوامی تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے فیصلہ کن ہوں گے۔‘‘
پاک امریکہ مشاورتی گروپ کے آخری مذاکرات یکم مئی 2011ء میں ہوئے مگر اس کے ایک روز بعد پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے حملے میں القاعدہ کے رہنما اوسامہ بن لادن اور پھر نومبر میں پاکستانی سرحدی چیک پوسٹ پر نیٹو حملے میں فوجیوں کی ہلاکتوں سے دونوں ممالک کے تعلقات منقطع ہو گئے۔
سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان دیرپا اور باہمی مفادات پر مبنی تعلقات استوار کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی اور ان معاملات پر غور بھی کیا گیا جو دوطرفہ تعلقات میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
آصف یاسین ملک نے بتایا کہ پاکستان کی جانب پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کی نقل و حمل اور ان کے خلاف موثر کارروائیوں کی غرض سے خفیہ معلومات کے تبادلے کے نظام کو تیز اور فعال بنانے کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
’’ہماری بات چیت میں اہم نکتہ انٹلیجنس کے تبادلے کو بہتر کرنا تھا۔ اب یہ نظام اتنا موثر نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ ہم نے تجاویز دی ہیں۔‘‘
مذاکرات کے بعد جاری ایک مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں وفود نے ایک دوسرے کو دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی پاکستان اور اتحادی افواج کی کوششوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
امریکی وفد کے سربراہ معاون وزیر دفاع جیمز ملر نے میڈیا کو بتایا کہ دونوں ممالک مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بات چیت میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو اتحادی اعانتی فنڈ کی ادائیگی کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور جیمز ملر نے بتایا کہ اس معاملے کو امریکہ کانگریس کے سامنے رکھا جائے گا تاکہ اس کی بروقت ادائیگی کو ممکن بنایا جا سکے۔
تاہم پاکستانی سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں اس حوالے سے کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے اخراجات ادائیگی میں تاخیر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کی ایک وجہ رہی ہے۔