پاکستان نے ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں وسیع تر اتفاق رائے موجود ہے کہ یہ کارروائیاں بند ہونی چاہیئں۔
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ پاکستان نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
قبائلی ذرائع کے مطابق بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارے سے بدھ کو دیر گئے میران شاہ کے قریب ایک مکان پر دو میزائل داغے گئے جس سے عمارت پوری طرح تباہ ہو گئی۔
حملے میں تین افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ہلاک و زخمی ہونے والوں کی فوری طور پر شناخت نہیں ہو سکی۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد یہ پہلا ڈرون حملہ ہے۔ گزشتہ ہفتے انھوں نے امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات میں پاکستانی علاقوں میں ڈورن حملے بند کرنے کی بابت تذکرہ کیا تھا۔
پاکستان نے ڈرون تازہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں وسیع تر اتفاق رائے موجود ہے کہ یہ کارروائیاں بند ہونی چاہیئں۔
وزارتِ خارجہ سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ڈرون حملے غیر سود مند ہیں، ان میں معصوم جانیں ضائع ہوتی ہیں اور ان حملوں کے انسانی ہمدردی سے متعلق مضمرات بھی سامنے آتے ہیں۔
’’یہ حملے خوشگوار اور تعاون پر مبنی تعلقات استوار کرنے اور خطے میں امن و استحکام سے متعلق امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ خواہش پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔‘‘
امریکہ کا موقف ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسندوں نے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے کرتے ہیں۔
امریکہ ڈرون کارروائیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم ہتھیار تصور کرتا ہے جب کہ پاکستان ان کی مخالفت کرتے ہوئے اسے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا آیا ہے۔
بدھ کو سینیٹ میں ایک تحریری جواب میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا تھا کہ 2008ء سے اب تک قبائلی علاقوں میں 317 ڈرون حملوں میں 67 شہری مارے گئے جب کہ ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی تعداد 2,016 بتائی گئی۔
قبائلی ذرائع کے مطابق بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارے سے بدھ کو دیر گئے میران شاہ کے قریب ایک مکان پر دو میزائل داغے گئے جس سے عمارت پوری طرح تباہ ہو گئی۔
حملے میں تین افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ہلاک و زخمی ہونے والوں کی فوری طور پر شناخت نہیں ہو سکی۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد یہ پہلا ڈرون حملہ ہے۔ گزشتہ ہفتے انھوں نے امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات میں پاکستانی علاقوں میں ڈورن حملے بند کرنے کی بابت تذکرہ کیا تھا۔
پاکستان نے ڈرون تازہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں وسیع تر اتفاق رائے موجود ہے کہ یہ کارروائیاں بند ہونی چاہیئں۔
وزارتِ خارجہ سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ڈرون حملے غیر سود مند ہیں، ان میں معصوم جانیں ضائع ہوتی ہیں اور ان حملوں کے انسانی ہمدردی سے متعلق مضمرات بھی سامنے آتے ہیں۔
’’یہ حملے خوشگوار اور تعاون پر مبنی تعلقات استوار کرنے اور خطے میں امن و استحکام سے متعلق امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ خواہش پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔‘‘
امریکہ کا موقف ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسندوں نے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے کرتے ہیں۔
امریکہ ڈرون کارروائیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم ہتھیار تصور کرتا ہے جب کہ پاکستان ان کی مخالفت کرتے ہوئے اسے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا آیا ہے۔
بدھ کو سینیٹ میں ایک تحریری جواب میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا تھا کہ 2008ء سے اب تک قبائلی علاقوں میں 317 ڈرون حملوں میں 67 شہری مارے گئے جب کہ ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی تعداد 2,016 بتائی گئی۔