پاکستان امریکہ کا ایک نان نیٹو اتحادی ملک ہے لیکن امریکی کانگریس میں پاکستان کی بطور امریکی نان نیٹو اتحادی کی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کیا گیا ہے۔
یہ بل ایوان نمائندگان کے ریپبلیکن رکن اینڈی بگس کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ اور اس میں پاکستان کو دوبارہ نیٹو اتحادی ملک قرار دینے کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر دروائی سے مشروط کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں نیو یارک سٹی یونیورسٹی کے گریجوایٹ اسکول میں سینٹر فار کمیونٹی اینڈ ایتھنک میڈیا کے شریک ڈائریکٹر جہانگیر خٹک نے کہا کہ اس قسم کے بلوں کا پاک امریکہ تعلقات پر مثبت اثر تو ہو نہیں سکتا۔ چاہے پاکستان کی پالیسیاں ان کے نقطہ نظر سے درست ہوں یا غلط ہوں۔ بلکہ اس سے پاکستان پر امریکی دباو میں اضافہ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ امریکی کانگریس میں ہر سال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بل پیش کئے جاتے ہیں، لیکن قانون بننے کے مرحلے تک تھوڑے ہی پہنچ پاتے ہیں۔ اور اس کے بارے میں بھی یقین سے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ قانون بن سکے گا یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ بل ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل طور پر سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ہر چند کہ واشنگٹن میں پاکستان کے حوالے سے بداعتمادی اور مایوسی پائی جاتی ہے، اور دونوں ملکوں کے تعلقات مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اور یہ فضا اتنی جلدی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ لیکن اگر افغانستان کے امن عمل کے حوالے پاکستان کی کوششوں سے مثبت نتائج آتے ہیں تو امریکہ اور پاکستان ے تعلقات اچھے ہو سکتے ہیں۔
جہانگیر خٹک کا کہنا تھا کہ خود ریپبلیکن پارٹی کے سینیٹر لنڈسی گراہم نے کہا ہے اگر پاکستان طالبان کے ساتھ بات چیت کو کامیاب بنانے میں امریکہ کی مدد کرتا ہے تو امریکہ کو پاکستان کو فری ٹریڈ معاہدے کی پیشکش کرنی چاہیئے۔
ادھر ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سابق ریسرچر نعمان ظفر کا کہنا تھا کہ یہ تو طے ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات دباؤ کا شکار ہیں۔ پاکستان امریکہ کو بتانا چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں جن کا ان کو تحفظ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔
نعمان ظفر کا کہنا تھا کہ امریکہ میں لابی سسٹم ہے اور پاکستان کی مخالف لابیز اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اس قسم کے بل پیش کرواتی رہتی ہیں۔ لیکن ہر بل کا قانون بننا ممکن نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بل کمیٹی میں جائے گا جہاں ماہرین اپنی رائے دیں گے اور خاص طور پر جب امریکی محکمہ دفاع سے رائے لی جائے گی تو شاید وہ بھی اس کی توثیق نہ کرے۔ کیونکہ اس طرح افغانستان میں امن کا عمل جو پٹڑی پر آچکا ہے وہ پھر اس سے ہٹ سکتا ہے۔
تجزیہ کار جہانگیر خٹک نے اس بارے میں مزید کیا کہا، یہ جاننے کے لیے اس آڈیو لنک کر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5